کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 23
پہلی اذان کے مقصد میں نماز کا صراحت کے ساتھ ذکر اس لئے نہ کیا کہ اس کے لئے دوسری اذان موجود ہے اور پہلی اذان صبح صادق سے قبل ہونے کی وجہ سے نماز کا وقت بتلانے کی غرض سے نہ ہو سکتی تھی اس لئے ایسی اشیاء کا ذکر کیا جن سے فراغت کا نماز کے اول وقت (جماعت کے ساتھ) ادا کرنے کا تعلق ہے۔ اس س حدیث میں پہلی اذان کے ساتھ اس کے صبح صادق سے قبل ہونے کی وجہ سے بھی بیان ہو گئی۔ حاصل یہ ہے کہ حدیث میں بیان شدہ اشیاء بطور مقصود اصلی ذکر ہوئی ہیں ۔ سحری مقصود اصلی نہیں ورنہ اس کا ذِکر ہوتا۔ ج۔ پہلی اذان نماز فجر کے وقت سے قریب ہی ہوتی تھی جیسا کہ احادیث میں اس کا وقت فجر کاذب آیا ہے[1] اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی دونوں اذانوں کا وقفہ قلیل بیان کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَھُمَا اِلَّا یَنْزِلُ ھٰذَا وَیَصْعَ ھٰذَا یعنی دونوں اذانوں کے درمیان اتنا وقفہ تھا کہ ایک مؤذن اذان کہہ کر اترتا تو دوسرا اذان کے لئے چڑھ جاتا۔ اگرچہ اس وقفے کا بیان یہاں مبالغتہً ہے لیکن اس مبالغے کا مقصد اذانوں کے درمیانی وقفہ کا تھوڑا ہونا ہے۔ اس سے ملوم ہوتا ہے کہ پہلی اذان کا تعلق بھی فجر ہی کے ساتھ ہے۔ جن احادیث میں پہلی اذان کے ساتھ سحری کھانے کا ذکر ہے ان سے یہ حاصل نہیں ہوتا کہ اس اذان کا مقصد ہی سحری ہے۔ ان احادیث سے زیادہ سے زیادہ یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ صحابہ کے سحری کھانے اور اذان کا وقت ایک تھا۔ حدیث کے الفاظ ’’اِذَا اَذَّنَ بِلَالٌ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوا‘‘ سے اگر سحری کے لئے اذان کا ہونا شرط قرار دے دیا جائے تو کئی خرابیاں لازم آئیں گی۔ مثلاً لازم آئے گا کہ اگر اذان اول نہ ہو تو سحری کھانا ہی جائز نہ ہو کیونکہ ’’اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ‘‘ (جب شرط نہ رہے تو مشروط نہیں رہتا) یا اگر اذان کہی جائے تو سحری کھانا ضروری ہو جائے حالانکہ ان دونوں باتوں کا کوئی بھی قائل نہیں ۔ در حقیقت سب احادیث کو اگر دیکھا جائے تو حاصل یہ ہوتا ہے کہ اذان شرعی سے بعض صحابہ کو تشویش لاحق ہونے کا خطرہ ہوا کیونکہ عام طور پر اذان نماز کا وقت شروع ہونے پر ہوتی ہے۔ اس تشویش کو دور کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس وقت سحری کھانے کی اجازت دی[2] اور فرمایا
[1] البخاری / ۱: ۸۴، ابو داؤد مع العون / ۲: ۲۷۵ وغیرہ۔ شرح معانی الآثار للطحاوی / ۱: ۸۴ میں ہے: لِبَلَالٍ : اِنَّکَ تُؤَذِّنُ اِذَا کَانَ الْفَجْرُ سَاطِعًا۔۔۔ الحدیث [2] حدیث میں کُلُوْا وَاشْرَبُوْا امر اجازت کے لئے ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ ’’وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْ‘‘