کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 22
احادیث سے واضح ہے تو پھر اس کا نام سحری کی اذان یا فجر کی پہلی اذان دونوں طرح ٹھیک ہے جیسا کہ بعض ائمہ نے اس کا نام اذانِ سحور لیا ہے (محلی / ۲: ۸۵ طبع جدید، میں ) امام ابن حزم رحمہ اللہ اذان ہذا کو صلوٰۃ الصبح کے لئے (قبل از وقت نماز) ذکر کر کے فرماتے ہیں ۔ لِاَنَّہ اَذَانُ سُحُوْرٍ لَّا اَذَانٌ لِّلصَّلٰوۃِ۔ یعنی یہ اذان سحری ہے وقتِ نماز کی اذان نہیں ۔ ہاں پہلی اذان کے صحیح مقصد اور مسنون وقت کا فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ سنت کے مطابق اس پر عمل کیا جا سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس سلسلہ میں حسب ذیل ہے:
قَالَ: اِنَّ بِلَالًا یُّؤَذِّنُ بِلَیْلٍ لِّیُوْقِطَ نَائِمَکُمْ وَلِیُرْجِعَ قَائِمَکُمْ وَلِیُرْجِعَ قَائِمَکُمْ رَوَاہُ الْجَمَاعَۃُ اِلَّا التِّرْمِذِیَّ۔
آپ نے فرمایا: بلال رات (سری کے وقت اذان دیتا ہے تاکہ سوئے ہوئے کو جائے اور قیام کرنے والے (تہجد پڑھنے والے) کو لوٹائے۔ معانی الآثار للطحاوی کی ایک روایت میں ہے لِیَرْجِعَ غَائِبَکُمٌ (قضائے حاجت وغیرہ کے لئے جانے والے کو لوٹائے۔)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اذان کا مقصد غفلت سے بیدار کر کے یا مختلف مصروفیتوں سے فارغ کر کے کسی اہم مطلوب کی تیاری ہے۔ اس مطلوب کے لئے حدیث میں نماز وغیرہ کا لفظ تو موجود نہیں لیکن دوسرے ایسے دلائل موجود ہیں جو یہ واضح کر رہے ہیں کہ اس اذان کا تعلق نماز سے ہے اور یہ اذان اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ نیند سے بیداری کے بعد تیاری کر کے نماز باجماعت اول وقت ادا کی جا سکے۔
الف۔ فریقین کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ یہ اذان شرعی الفاظ کے ساتھ تھی۔ جس میں حَیَّ عَلٰی الصَّلٰوۃِ (نماز پر متوجہ ہو) کے الفاظ بھی ہیں ، اس طرح کی اذان نماز ہی سے متعلق ہو سکتی ہے۔
ب۔ حدیث ہذا میں اس اذان کے ذریعہ سے جن چیزوں سے فراغت مقصد بیان ہوا ہے ان کا تعلق اہمیت کے ساتھ نماز ہی سے ہے۔ ویسے تو فراغت کے بعد ہر کام ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ظاہر یہی ہے کہ قضاء حاجت سے فراغت نماز کے لئے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح تہجد پڑھنے والا تھوڑی دیر سستا کر نماز کے لئے تازہ دم ہو جائے گا نیز اگر یہ اذان سحری کے لئے ہوتی تو ان چیزوں کا اتنی اہمیت کے ساتھ ذکر نہ ہوتا بلکہ سحری جو مقصود اصلی تھا وہی ذکر کر دیا جاتا۔ اسے چھوڑ کر ان چیزوں کے واسطہ کی کیا مجبوری تھی؟ لیکن حدیث میں ان چیزوں سے فراغت بطور مقصود اصلی ذکر ہوئی ہے جس کا مفہوم تیاری نماز ہی ہے [1]جس کا وقت جلد ہی بعد میں ہو رہا ہے۔
[1] اس کی نظیر (جمعہ کی پہلی اذان ہے جو ظہر کے وقت سے قبل) تیاری جمعہ کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مقرر فرمائی۔ اگرچہ صحابہ شارع نہیں ہوتا لیکن فجر کی تیاری کے لئے فجر سے قبل اذان کی مشروعیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھی، اس لئے ان کا یہ فعل مدعت نہ ہوا۔ لہٰذا صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا اور اس پر عمل رائج ہوا۔