کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 21
3.بطور تائید اقوالِ علماء اور بعض کتب احادیث کے ابواب مثلاً مؤطا میں امام مالک رحمہ اللہ نے یوں باب باندھا ہے: قَدْرُ السَّحُوْرِ مِنَ النِّدَاءِ (بامحاورہ ترجمہ از مولوی وحید الزمان) اذان کا سحری کے وقت ہونا۔ لفظی ترجمہ یہ ہے: سحری کی اذان کے وقت کا اندازہ۔ اسی طرح مسند احمد حسب تبویب الفتح الربانی میں لَا یَمْنَعَنَّکُمْ مِنْ سُحُوْرِکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ۔ الحدیث پر یوں باب منعقد کیا گیا ہے۔: بَابُ وَقْتِ السُّحُوْرِ وَاسْتِحْبَابُ تَاخِیْرِہ۔ یعنی سحری کے وقت اور اس کو دیر کر کے کھانے پر استحباب کا بیان۔ فریق ثانی کے دلائل کا خلاصہ حسب ذیل ہے: 1.فریق اول کی پیش کردہ احادیث میں لِلسُّحُوْرِ کا لفظ موجود نہیں ۔ بعض احادیث میں صرف رات کے وقت اذان ہونے کا ذِکر ہے اور جن میں کھانے کا ذِکر ہے وہاں سحری کا لفظ ذکر نہیں ۔ لہٰذا یہ اذان سحری کے لئے نہ ہوئی۔ 2.جن احادیث میں مؤذنوں کے نماز اور سحری پر امین ہونے کا ذِکر ہے ان سے مراد اذان سے نماز کا وقت شروع ہونے اور سحری کا وقت ختم ہو جانے پر مؤذنوں کی امانت کا ذِکر ہے۔ 3.کوفہ اور حجاز کے چند علماء کے علاوہ سب اس کے اذان فجر ہونے کے قائل ہیں اور چند علمائے احناف نے اسے سحری کی اذان کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ دونوں اذانیں فجر کے لئے ہیں اس لئے دونوں کے درمیان چند منٹ کا فاصلہ ہے بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صبح کی نماز کو باقی نمازوں کے درمیان سے اذان اول وقت میں دینے کے ساتھ اس لئے مخصوص کیا گیا کہ اول وقت میں نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور صبح غالباً نیند کے بعد واقع ہوتی ہے۔ اس واسطے ایسے آدمی کا تقرر مناسب ہوا ہے کہ وہ لوگوں کو وقت کے داخل ہونے سے پہلے آگاہ کرے تاکہ وہ تیار ہو جائیں اور اول وقت کی فضیلت کو پا لیں ۔ (فتح الباری ۲: ۸۳) میں کہتا ہوں کہ جہاں تک ’’اذانِ سحری‘‘ یا ’’اذانِ فجر‘‘ کے نام کا تعلق ہے، کسی حدیث میں للسحور یا للفجر کا لفظ موجود نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں اس اذان کے مقصد اور وقت کا ذِکر ہے۔ اس لئے جب فریقین بالاتفاق یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اذان وقتِ فجر سے قبل رات میں یا سحری کے وقت میں ہوتی تھی جو