کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 20
مقصد پر کچھ عرض کرتا ہوں : صبح کی دو اذانیں تسلیم کرنے والوں میں دوسری اذان کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ، دونوں اس پر متفق ہیں کہ دوسری اذان نماز کا وقت بتلانے اور سامعین کو نماز کے لئے بلانے کے لئے ہے لیکن پہلی اذان کے متعلق اختلاف ہے کہ آیا وہ سحری کھانے کے لئے ہے اور رمضان کے ساتھ مخصوص ہے یا وہ نماز فجر کی تیاری کے لئے ہے اور وہ سال بھر کے لئے مسنون ہے؟ فریق اول کے دلائل کا خلاصہ حسب ذیل ہے: 1.وہ احادیث جن میں اذان کا ذکر سحری کھانے کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاً: عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا اَذَّنَ بِلَالٌ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ، قَالَتْ: وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَھُمَا اِلَّا یَنْزِلُ ھٰذَا وَیَصْعَدُ ھٰذَا (النسائی ۱: ۷۴) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بلال رضی اللہ عنہ اذان کہے تو تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے تو پھر رک جاؤ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دونوں اذانوں کے درمیانی وقفہ کا اندازہ بیان فرمایا کہ ایک موذن اذان کہہ کر منبر سے اترتا تھا تو اس کے بعد دوسرا موذن چڑھ جاتا تھا۔ اس حدیث میں الفاظ اِذَا اَذَّنَ بِلَالٌ سے ظاہر ہے کہ سحری اذان کے بعد کھانی چاہئے کیونکہ یہ جملہ شرطیہ ہے اور جزأ اس کی جملہ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہے جس کی غایت اذان ابن مکتوم رضی اللہ عنہ میں بیان کی گئی ہے۔ الخ 2.وہ احادیث جن میں مؤذن کو سحری اور نماز پر امین کہا گیا ہے، مثلاً بیہقی میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ( صلی اللہ علیہ وسلم ): اُمَنَاءُ الْمُسْلِمیْنَ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ وَسُحُوْرِھِمْ الْمُؤَذِّنُوْنَ‘‘ (السنن الکبریٰ ۱: ۴۲۶) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کے امین ان کی نماز اور سحری پر مؤذن لوگ ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جیسے نماز کے وقت پر مؤذن مقرر ہوتا ہے اور وہ وقت ہونے پر اذان کہہ دیتا ہے ایسے ہی سحری پر مؤذن مقرر ہوتا ہے جو سحری ہونے پر اذان کہہ دیتا ہے۔ الخ