کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 19
اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم اذانِ سحری میں کہا جائے یا اذانِ فجر میں ؟ استاذی المحترم حافظ عبد الرحمن صاحب مدنیؔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پچھلے دِنوں ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ کراچی اور ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘ لاہور میں صبح کی دو اذانوں کے متعلق مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ۔ ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور نے بھی مولانا عبد القادر صاحب حصاری کا تعاقب تلخیص سے شائع کیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ’’اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ دو اذانوں میں س پہلی اذان میں کہا جائے یا دوسری میں ؟ نیز اگر ہو سکے تو اس مسئلہ کی بھی وضاحت کر دیں کہ پہلی اذان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کس غرض سے ہوتی تھی؟ امید ہے کہ مسئلہ کی عمومیت اور اہمیت کے پیش نظر اسے جلد ’’محدث‘‘ میں شائع فرمائیں گے۔ بینوا توجروا۔ حافظ عبد الخبیر اویسیؔ حفید مولانا عبد التواب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ الجواب بعون الوھاب: اس مسئلہ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ’’اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ کا مقصد کیا ہے اور یہ مقصد دو اذانوں میں سے کس اذان سے حاصل ہوتا ہے؟ نیز دونوں اذانوں کا علیحدہ علیحدہ مقصد متعین کیا جائے۔‘‘ چنانچہ میں اس مسئلہ پر بحث سے پہلے دوسری شق کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ’’محدث‘‘ برائے مارچ ۱۹۷۱؁ء میں اس دوسر حصہ پر ایک جانب کے دلائل بھی شائع ہو چکے ہیں لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کی تنقید کر کے دلائل سے اس کی وضاحت کر دی جائے۔ [1]لہٰذا میں پہلے دونوں اذانوں کے
[1] ہفت روزہ اہل حدیث لاہور مجریہ ۴ دسمبر ۱۹۷۰ء میں مفتی صاحب نے سحری کے لئے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کو امر بالمعروف قرار دیا تھا جسے فریق ثانی نے بدعت قرار دیا حالانکہ سحری پکانے کا سبب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب میں نہ تھا۔ فتأمل