کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 17
’’اے میرے بیٹے جب معدہ بھر جاتا ہے تو عقل و فکر اور سوچ بچار کا مادہ سو جاتا ہے حکمت گونگی ہو جاتی ہے۔ اعضاء عبادت سے کترانے لگتے ہیں ۔‘‘
علامہ محمد بن عبد الرحمن بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔
اِنَّہ بِجُوْعِ بَطْنِہ یَنْدَفِعُ جُوْعٌ کَثِیْرٌ مِّنْ حَوَاسِّہ فَاِذَا اَشْبَعَ بَطْنُہ جَاعَ عَیْنُہ وَلِسَانُہْ وَیَدُہ وَفَرْجُہ فَکَانَ تَشْبِیْعُ النَّفْسِ تَجْوِیْعَھَا وَفِیْ تَجْوِیْعِھَا تَشْبِیْعُھَا فَکَانَ ھٰذَا التَّجْوِیْعُ اَوْلٰی۔
’’پیٹ کے (مناسب) بھوکا رہنے سے کئی قسم کے حواس کی بھوک زائل ہو جاتی ہے اور اس کے سیر ہونے سے آنکھ، زبان، ہاتھ، شرمگاہ (یعنی تمام حواس) بھوکے ہو جاتے ہیں (ان کی قوت ماند پڑ جاتی ہے) چونکہ پیٹ کو (مناسب طور پر) بھوکا رکھنا ہی ان حواس کو سیر کرنا ہے اس لئے اس (معدہ) کو ہی (مناسب) بھوکا رکھنا بہتر ہے۔‘‘
روزے سے معرفتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے:
روزے کی تین سٹیجیں ہیں ۔ پہلی سٹیج یہ ہے کہ انسان کھانے پینے سے پرہیز کرے۔ دوسری سٹیج یہ ہے کہ روزے دار ہر قسم کے گناہوں سے بچے۔ تیسری اور آخری سٹیج یہ ہے کہ دنیاوی پراگندہ خیالات سے منہ موڑ کر خدا کی طرف متوجہ ہو جائے۔
چنانچہ علامہ محمد بن احمد المحلی المتوفی ۸۵۰ھ کہتے ہیں ۔
روزے کی عمومی حیثیت یہ ہے کہ انسان پیٹ، شرمگاہ اور ہر عضو کی خواہش دبائے۔ اس کی خصوصی صورت یہ ہے کہ کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں بلکہ تمام اعضاء کو گناہوں سے روکے لیکن اس کی آخری سٹیج یہ ہے کہ روزے دار خداوند تعالیٰ سے ہر غافل کرنے والی شے سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کر لے۔ بس اسی پیدا شدہ صورت سے معرفتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ (خدا کے لئے) بھوکا رہنے سے حاصل ہوتا ہے۔
شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :