کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 14
عیسائیوں میں تھا جسے آج کل انہوں نے بدل ڈالا ہے۔ چنانچہ آج کل وہ روزہ آدھی رات سے دوپہر تک رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے شروع میں اس کے بارے میں کوئی واضح حکم نہیں فرمایا۔ مسلمان مروجہ دستور کے مطابق روزہ رکھتے رہے حتیٰ کہ مدینہ منورہ کے ایک کسان صحابی قیس رضی اللہ عنہ بن حرمہ انصاری کا واقعہ پیش آیا۔ روزہ رکھ کر دن بھر زمین میں کام کرتے کرتے پہلے ہی تھک گئے تھے۔ افطاری کے وقت گھر پہنچے۔ کھانے کی تیاری میں دیر تھی۔ انتظار کے لئے لیٹے لیکن نیند نے غلبہ پا لیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ پہلا روزہ ابھی ختم نہیں ہوا اور دوسرا شروع ہو گیا۔ دوسرے روز پھر اپنے کاروبار کو چلے گئے۔ لیکن دوپہر سے پہلے طاقت جواب دے گئی اور غشیاں پڑنے لگیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تخفیف فرما دی اور حکم ہوا: وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّ الصِیَّامَ اِلَی الَّیْلِ۔ ’’صبح کا سپید دھاگہ رات کے سیاہ دھاگے سے جدا ہونے تک کھاؤ اور پیو۔ پھر رات تک روزہ مکمل کرو۔‘‘ اور رات کا آغاز چونکہ غروب آفتاب سے ہی شروع ہو جاتا ہے اس لئے یہی افطار کا وقت مقرر ہوا۔ فضیلت روزہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث نبویہ میں روزے کے بہت سے فضائل ملتے ہیں ۔ یہ ایک مستقل باب ہے جسے مکمل بیان کرنا اس مقالے کے پیش نظر ناممکن ہے۔ لیکن پھر بھی بطور مثال چند احادیث ملاحظہ ہوں ۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (الحدیث) ’’کہ جو شخص رمضان میں بحالت ایمان نیکی کے شوق سے روزہ رکھے اس کے پہلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘