کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 13
اگر امت مسلمہ کو ساری عمر شکر گزاری کا موقع ملتا جائے تو بھی شکر ادا ہونا نا ممکن ہے لیکن چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شکر بجا آوری کا اظہار اکثر روزہ سے کرتے جیسا کہ یوم عاشورہ اور پیر کے روزوں سے ثابت ہوتا ہے اس لئے بھی عین مناسب تھا کہ ماہِ رمضان میں روزے رکھے جاتے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے واشگاف طورپر فرما دیا ہے۔ ’’شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ ھُدًی لِّلنّاسِ َبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘ کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن مجید اترا جس میں لوگوں کیلئے ہدایت اور ظاہر دلائل اور معجزے ہیں ۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ رمضان کے فضائل اور اہمیت جتلا کر یہ حکم دے رہے ہیں کہ اتنی بڑی نعمت کا شکر اسی صورت میں ادا ہو سکتا ہے کہ تم روزے رکھو۔ پھر حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحیفے بھی اسی ماہ کی یکم تاریخ کو عطا ہوئے۔ حضر ت داؤد علیہ السلام کو زبور ۱۸ یا ۱۲ رمضان کو ملی۔ حضت موسیٰ علیہ السلام کو تورات ۶ رمضان کو عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل ۱۲ یا ۱۳ رمضان کو ملی۔ (ملاحظہ ابن کثیر) جب رمضان میں ہر کلامِ الٰہی کو خصوصی مناسبت ہوئی جو کہ ہر قسم کی فلاح و بہبود کی ضامن ہے تو اتنی بڑی نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھی ضروری تھا جس کا اظہار روزے سے بڑھ کر اور کسی عبادت میں نہیں پایا جاتا۔ نوٹ: روزوں کی تعداد میں حکمتِ عملی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بعض اصفیاء سے یہ بیان ہیں کہ جب آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درخت کھایا پھر توبہ کی تو جب تک درخت کا اثر پیٹ میں رہا توبہ قبول نہیں ہوئی۔ جب تیس روز کے بعد ان کا پیٹ صاف ہوا تو توبہ قبول ہوئی جس کی بناء پر ان کی اولاد نے تیس روزے رکھے۔ اس کے بعد حافظ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بات بلا سند نہیں کرنی چاہئے اور اس کی سند ملنا بھی بہت ہی دور کی بات ہے۔ وقت کی تعیین: عرب میں دستور تھا کہ روزہ غروب آفتاب پر کھول لیتے۔ جب تک نیند نہ آتی کھاتے رہتے اور جب سو جاتے تو اگلی شام تک کھانا پینا بند ہو جاتا۔ یہی رواج