کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 11
روزہ اور قمری مہینہ:
جس طرح اسلامی حساب و کتاب بحر روزینہ (موّقت) اعمال کے اور تقریبات قمری مہینوں پر منحصر ہیں ۔ اسی طرح دیگر آسمانی مذاہب کے تمام تہوار اور اوقات بھی قمری مہینوں کے تابع ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِی کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے جن سے چار حرمت کے ہیں اور یہ چیز بالکل واضح ہے کہ حرمت کے چار ماہ صرف قمری ہیں شمسی نہیں ۔
’’تاریخ عالم‘‘ میں ہے کہ پرانے کھنڈرات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملکوں کی سابقہ تاریخ قمری مہینوں کے ماتحت ہے۔ عیسائی مورخ بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے تمام مذہبی تہوار دراصل قمری مہینوں سے متعلق تھے جن کو شمسی مہینوں کے تابع کر دیا گیا ہے۔
شمسی مہینوں کا حساب خود ساختہ ہے۔ اس کا سب سے پہلے حساب یونانی نجومی عالم ہرگوس نے ۲۰۰ ق م میں لگایا لیکن اس سے چھ منٹ کی غلطی رہ گئی جسے بعد میں لیپ کے سالوں میں فروری کا ایک دن بڑھا کر پرا کیا گیا۔
ایسا مشکل حساب کسی عالم گیر مذہب کے ساتھ کیسے چل سکتا ہے؟ شہروں میں انسان ڈائریاں لکھتا پھرتا ہے۔ دیہاتوں ، جنگلوں ، پہاڑوں اور جزیرں میں آباد مخلوقِ خدا کیا کرے گی؟ ہاں چاند کو دکھ کر ہر ایک شخص تاریخ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس لئے بھی عین مناسب تھا کہ روزے کسی قمری مہینے میں فرض ہوں ۔ نیز مہینوں میں موسمی تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں نومبر دسمبر ہمیشہ سردی میں لپٹے آتے ہیں ۔ جون جولائی چھتریاں لے کر نمودار ہوتے ہیں ۔ اگر شمسی مہینوں میں روزہ رکھنے کا حکم ملتا تو بعض علاقے ہمیشہ سردیوں میں روزہ رکھتے اور باقی علاقے گرمیوں میں روزہ رکھتے۔ کیونکہ جب ہمارے ہاں براعظم ایشیا میں سردی ہوتی ہے تو جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ملکوں میں سخت گرمی ہوتی ہے۔ ان کے لئے تکلیف مالا یطاق ہوتی۔
اس لئے مناسب تھا کہ قمری مہینے مقرر کئے جاتے تاکہ مساوات قائم رہے۔