کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 10
فرما دی بعد ازاں[1] اس کے ساتھ ۹ محرم یا ۱۱ محرم کے روزے کا بھی ارادہ ظاہر فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ماہ کے تین روزے رکھنے کی ترغیب دلائی۔ اس طرح بتدریج (قبلہ کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد) ہجرت کے اٹھارویں ماہ یعنی ماہ شعبان ۲ھ میں رمضان کی فرضیت نازل ہوئی۔ [2]
شبہ:
بعض لوگوں کو وہم ہے کہ چونکہ ابتدائے اسلام میں غربت تھی اس لئے روزے کا سبق دیا گیا چنانچہ کمیونسٹ اسی بات کا دھوکہ دے کر مسلمانوں کو ورغلاتے ہیں ۔
ازالہ شبہ:
یہ واقعات کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ جنگ بدر ماہ رمضان ۲ھ میں ہوئی اور اسی سال روزے فرض ہوئے جیسا کہ ابھی ابھی بیان ہوا ہے، اور جنگ بدر کے بعد مسلمان روز افزوں ترقی پذیر تھے۔ تنگی کے دِن گزرتے گئے۔ فراخی کے دِن آنے لگے۔ اگر روزے صرف غربت کی بناء پر رکھے جاتے تو روزے ہجرت سے کافی دیر پہلے فرض ہو جاتے۔
[1] امام رزین کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے آپ نے ۹ محرم اور ۱۰ محرم کو روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور مسند احمد میں گیارہ محرم کا بھی ذکر ملتا ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل سے ایک حدیث ذکر فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم عاشورہ کے علاوہ ہر ماہ کے تین روزے بھی رکھے جاتے تھے لیکن بقول عمرو بن مرہ ہر ماہ کے یہ تین روزے فرض نہیں تھے۔ بلکہ نفل تھے۔
[2] جب رمضان فرض ہوا تو ایک ماہ کے متواتر روزے رکھنے صحابہ رضی اللہ عنہم پر دشوار تھے اس لئے روزہ کی بجائے فدیہ کی اجازت تھی۔ اس کے بعد جب مسلمان روزہ رکھنے کے خوگر ہو گئے تو صرف روزہ رکھنے کا ہی حکم ہوا۔ ارشاد ہے: ’’فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔‘‘ جو ماہِ رمضان پائے اس کے روزے ہی رکھے۔