کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 9
جن میں سے ایک بیوہ عورت نے ایک غیر ولی شخص کو اپنے نکاح کا اختیار دے دیا جس پر اس نے اس عورت کا نکاح کر دیا۔ جب یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے نکاح کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو درّے لگوائے اور اس عورت کا نکاح توڑ دیا۔‘‘ اور مؤطا امام مالک ص ۴۳۶ میں ہے: قال عمر بن الخطاب: لا تنکح المرأة إلا بإذن ولیھا، أو ذي الرأي من أھلھا ، أو السلطان ’’سعید رضی اللہ عنہ بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عورت کا نکاح نہ کیا جائے مگر ولی کے اذن سے یا اس کے کنبے کے عقل مند کے اذن سے یا بادشاہ کے اذن سے (اگر اس کا کوئی ولی نہ ہو)‘‘ اور جامع رمذی ص ۱۷۷ میں ہے: والعمل في ھذا الباب علی حدیث النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا نکاح إلا بولی عند أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم منھم عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد اللہ بن عباس و أبو ھریرۃ وغیرھم وھٰکذا روي عن بعض فقھائ التابعین أنھم قالوا لا نکاح إلا بولي منھم سعید بن المسیب والحسن البصري وشریح وإبراھیم النخعي وعمر بن عبد العزیز وغیرھم وبھذا یقول سفیان الثوري والأوزاعي ومالک وعبد اللہ بن المبارک والشافعي وأحمد واسحق! ’’یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کرام کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی حدیث لا نکاح الا بولی پر ہے جن میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب، عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہم ہیں اور بعض فقہاء تابعین رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے کہ