کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 8
عورت نکاح میں ولی کی محتاج کیوں ہے؟ حضرت مولانا محمد صاحب کنگن پوری قسط نمبر ۴ (آخری) عورت کا بغیر ولی کے نکاح نہ ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع: دلائل شرعیہ میں اصل قرآن و حدیث ہی ہیں سو وہ مسئلہ مذکورہ کے بارے میں بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ اب مومنِ متبعِ قرآن و حدیث کیلئے کسی دلیل کا انتظار باقی نہیں رہنا چاہئے۔ تاہم مختصر طور پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذِکر کر دینا بہتر ہوگا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے نصاً صراحتاً ثابت ہے کہ ولی کے بغیر عورت کا نکاح جائز نہیں اور وہ اس میں بڑے متشدد تھے اور بعض سے اگرچہ صراحتاً مذکور نہیں لیکن ان سے اس کا خلاف بھی ثابت نہیں کتب احادیث سے امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں تشدد ملاحظہ فرمائیں ۔ منتقیٰ [1]للمجد ابن تیمیہ میں ہے: وعن عکرمۃ بن خالد قال: جمعت الطریق رکباً فجعلت امرأۃ منھن (ثیب) أمرھا بید رجل غیر ولي فأنکحھا فبلغ ذلک عمر فجلد الناکح والمنکح وردّ نکاحھا (رواہ الشافعی والدار قطنی) ’’امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی مسند اور امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں عکرمہ بن خالد سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رستہ میں کچھ اونٹ سوار مسافر اکٹھے ہو گئے
[1] منتقی/ ۲: ۵۰۶