کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 5
فرد اور اس کے حقوق کا تحفط کرتی اور اجتماعی مفادات کے حصول کی ضمانت دے کر طبقاتی اونچ نیچ کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اسی طرح جمہوریت جہاں نام نہاد عوامی اقتدار کے زعم میں افتراق و انتشار کا بیج بوتی ہے وہاں اسلام صحیح نمائندہ حکومت کا انتخاب کر کے ملکی استحکام اور عوامی اتحاد و اخوت کا باعث بنتا ہے۔ دنیا میں سیاسی طور پر حکومت اور عوام کے اختیارات کے توازن کے لئے آمریت اور جمہوریت کی ایک جنگ جاری ہے جب مادہ پرست جمہوریت میں انتشار اور ابتری دیکھتے ہیں تو استحکام کے نعرہ میں آمریت کو قبول کر لیتے ہیں پھر جب اس استحکام کی آڑ میں کوئی آمر مطلق العنان بن بیٹھتا ہے اور ظلم و استبداد کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے تو پھر آزادی کے نام پر جمہوریت کا رونا روتے ہیں ۔ غرض بے چینی اور بے اطمینانی کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اور یہی وہ صورتِ حال ہے جو اسلام اور خدائی نظامِ زندگی سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ معاصر موصوف نے سیاسی زندگی کو جس طرح آمریت اور جمہوریت کے و نظاموں میں بند کرنے کی کوشش کی ہے اور اسلام کو جمہوریت قرار دے کر اسے صرف آمریت کے مد مقابل کھڑا کیا ہے اس سے وہ خود ذہنی انتشار میں مبتلا ہو گئے ہیں جیسا کہ وہ جمہوریت کے بہت بڑے داعی ہونے کے باوجود گزشتہ آزادانہ انتخابات کو فسطائیت کا سبب قرار دیتے ہیں اور پھر اس الزام سے بچنے کے لئے کہ یہ فسطائیت انتخابات سے قبل ملنے والی جمہوری آزادی ہی کا نتیجہ ہے انہوں نے اس کی ذمہ داری گیارہ سالہ آمریت پر ڈال دی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ گیارہ سالہ آمریت کس کا نتیجہ تھی کیا وہ پہلی گیارہ سالہ جمہوریت کا تحفہ نہ تھی؟ نیز یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بقول شما، آمریت سے حالات ایسے ہی ابتر ہو چکے ہیں کہ اس کے بعد ملنے والی تھوڑے عرصہ کی آزادی نے فسطائیت کو مسلط کر دیا ہے تو کیا اب اگر فسطائیت ابھارنے والوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی باگ دوڑ دے دی جائے تو کیا ملک باقی رہ جائے گا؟ ہمارا ایمان ہے کہ ملک کی بقاء اور استحکام کا انحصار اسلام اور صرف اسلام پر ہے۔ لہٰذا اس وقت ہم سب کی مشترکہ کوششیں جمہوریت و اشتراکیت کی بجائے اسلامی آئین و ستور کے نفاذ کیلئے وقف ہونی چاہئیں جس کے بعد ملک کا نظم و نسق صحیح نمائندہ اسلامی حکومت کے سپرد کیا جا سکے۔