کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 48
عمدۃ الرعایہ میں ہے:
خلافاً للشافعی رحمہ اللہ فإن عندہ یقرأ الفاتحۃ بعد التکبیرۃ الأولی وھو الأ قوی دلیلا وھو الذي اختارہ الشر نبلالی من أصحابنا وألف فیہ رسالۃ ۔
امام شافعی اس میں اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھی جائے گی اور اس کی دلیل قوی ہے۔ ہمارے علماء میں سے شربنلالی کا یہی کہنا ہے اور اس نے اس بارہ میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا ہے۔
اور تعلیق الممجد میں ہے:
قالوا لو قرأھا بنیۃ الدعاء لا بأس بہ ویحتمل أن یکون نفیا للزومہ فلا یکون فیہ نفي الجواز وإلیہ مال حسن الشر بنلالی من متأخری أصحابنا حیث صنف رسالۃ سماھا بالنظم المستطاب لحکم القرأۃ فی صلوۃ الجنازۃ بأم الکتاب وردّ فیھا علی من ذکر الکراھۃ بدلائل شافیۃ وھذا ھو الأولٰی لثبوت ذلک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ الخ۔
اگر بغض دعاء پڑھ لے کوئی حرج نہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کے لزوم کی نفی ہو (یعنی لا باس بلزومہٖ کہ اسے لازمی قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ) تو اس صورت میں جواز کی نفی نہ ہو۔ ہمارے متاخرین اماموں میں سے حسن شربنلالی کا یہی خیال ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ایک رسالہ جس کا نام ’’النظم المستطاب لحکم القرأۃ فی صلاۃ الجنازۃ بام الکتاب‘‘۔ اس رسالہ میں انہوں نے ان لوگوں کی تردید میں جو اسے مکروہ جانتے ہیں مسکت دلائل ذکر کئے ہیں اور یہی بہتر ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے صحابہ کے عمل سے یہ ثابت ہو چکا ہے۔ (تمت بالخیر)