کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 47
تکبیروں میں ہاتھ اُٹھانے چاہییں اور بقول صاحبِ تبیین ائمہ بلخ میں سے اکثر علماء نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
عمدۃ الرعایہ میں ہے:
قولہ خلافا للشافعي وکذا الأحمد ومالک بل قال بہ أئمۃ بلخ من مشائخنا وھو روایۃ عن أبي حنیفۃ أیضا ۔
امام شافعی، احمد اور مالک اس کے خلاف ہیں ۔ بلکہ ہمار ائمہ بلخ کا بھی یہی نظریہ ہے اور اس بارے میں امام ابو حنیفہ سے بھی ایک روایت آتی ہے۔
سوال: نمازِ جنازہ میں بعد تکبیر اولیٰ کے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں ؟
جواب: چاہیے۔ حسن شربنلالی نے ص ۲۰۳ حاشیہ درر میں لکھا ہے:
قولہ لا قراءۃ فیھا الخ۔ وقال في الولوالجیۃ أن قراءة الفاتحۃ بنیۃ الدعاء لا بأس بہ وإن قرأھا بنیۃ القراءۃ لا یجوز ، أقول :نفی الجواز فیہ تأمل، لأنّا ر أینا في کثیر من مواضع الخلاف استحباب رعایتہ کإ عادۃ الوضوء من مس الذکر والمرأۃ فیکون رعایۃ صحۃ الصلوۃ بقراءۃ الفاتحۃ علی قصد القرآن کذلک بل أولٰی لأن الإمام الشافعي یفرضھا في الجنازۃ فتأمل۔
صاحب ولوالجیہ کے نزدیک دعاء کی غرض سے تو سورۃ فاتحہ جائز ہے لیکن قرأت کی غرض سے پڑھنا ناجائز ہے۔ میں کہتا ہوں ناجائز کہنا غور طلب ہے کیونکہ ہم نے اختلافی مسائل کے بارے میں اکثر یہی دیکھا ہے کہ اختلاف سے بچ نکلنا مستحب ہے۔ مثلاً شرم گاہ کو ہاتھ لگانے اور عورت کو چھونے سے وضو کرنا۔ نماز کی صحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے سورہ فاتحہ قرأت کی غرض سے پڑھنا بھی ایسا ہی ہو گا۔ بلکہ یہ بہتر ہے کیونکہ امام شافعی نماز جنازہ میں اسے فرض قرار دیتے ہیں ۔