کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 43
کی اتباع ہے خواہ وہ کہیں ہو۔ عمدۃ الرعایہ میں ہے: ولا یخفی ضعفہ بل ضعف جمیع ما وجھوا الکراھۃ کما حققناہ في تحفۃ النبلاء الفناھا في مسئلۃ جماعۃ النسآء وذکر ھناک أن الحق عدم الکراھۃ کیف لا وقد أمّت بھن أم سلمۃ وعائشۃ في التراویح و في الفرض کما أخرج ابن أبی شیبۃ وغیرہ وأمت أم ورقۃ في عہد النبي صلی اللہ علیہ وسلم بأمرہٖ کما أخرجہ أبو داؤد ۔ یہ مسئلہ خود ہی نہیں بلکہ اس کے متعلق حکم کراہت کے جتنے دلائل بھی فقہاء نے ذکر کئے ہیں ۔ یہ سب واضح طور پر ضعیف اور کمزور ہیں جیسے کہ تحفۃ النبلاء میں جسے ہم نے عورتوں کی جماعت کے بارے میں تصنیف کیا ہے اس میں ہم نے تحقیق کی ہے اور اس رسالہ میں ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ سچ بات تو یہ ہے کہ اس میں کوئی کراہت نہیں ایسا کیوں نہ کہا جائے جب کہ بموجب روایت ابن ابی شیبہ وغیرہ حضرات ام سلمہ رضی اللہ عنہا و عائشہ رضی اللہ عنہا نے راویح اور فرض میں امامت کی ہے اور عہد نبوی میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ام ورقہ رضی اللہ عنہا نے امامت کرائی ہے۔ (بموجب روایت ابی داؤد) سوال: قضاء نماز جہریہ میں جہر افضل ہے یا نہ؟ جواب: ہے۔ نفع المفتی والسائل میں لکھا ہے: الذي یقضی الصلوۃ الجھریۃ منفرداً فإنہ مخیر بین أن یجھر وبین أن یسر ، والجھر أفضل وھو مختار السرخسی وفخر الإسلام وجماعۃ من المتأخرین وقال قاضي ھو الصحیح وفي الذخیرۃ ھو الأصح ، وقال البر جندی ذکر في الظھیریۃ و