کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 42
میں بہت سی وعید کی احادیث آئی ہیں ۔ اس لئے یہ شاذ اور مردود ہے اور یہ بات واضح ہے کہ مستحب کا تارک ملامت نہیں کیا جاتا اور تیسرا قول یہ ہے کہ جماعت واجب ہے اسی کو صاحب بحر الرائق، غنیہ اور بدائع نے ترجیح دی ہے اور سروجی وغیرہ نے اس قول کو ہمارے اکثر مشائخ سے منسوب کیا ہے۔ سوال: جماعت عورتوں کی مسنون ہے یا مکروہ و منسوخ؟ جواب: مکروہ یا منسوخ نہیں ۔ چنانچہ فتح الودد حاشیہ سنن ابی داؤد میں تحت حدیث ام ورقہ کے لکھا ہے: إن ھذا الحدیث یدل علی جواز إمامۃ المرأۃ للنساء ومن یقول بکراھۃ جماعتھن یعمل الحدیث علی النسخ لکن ابن الھمام وغیرہ ینکرون تحقق الناسخ ۔ یہ حدیث عورتوں کے لئے عورت کی امامت پر دلالت کرتی ہے اور جو شخص عورتوں کی جماعت کو مکروہ جانا ہے وہ اس حدیث کو منسوخ سمجھتا ہے مگر ابن ہمام وغیرہ نے کہا ہے کہ اس کا ناسخ ثابت ہی نہیں ہوتا۔ مولانا عبد العلی رحمہ اللہ نے ارکان اربعہ میں لکھا ہے: وعلی ھذا فدعوی الکراھۃ مشکلۃ لا بدّلھا من دلیل وسئل الشیخ ابن الھمام إلی عدم الکراھۃ ۔ لہٰذا کراہت کا دعوٰی بغیر کسی دلیل کے مشکل ہے اور شیخ ابن الہمام تو اس کے عدم کراہت کے ہی قائل ہیں ۔ اور ابن ہمام کی فتح القدیر میں ہے: ولا علینا أن نذھب إلٰی ذلک فإن المقصود اتباع الحق حیث کان ۔ ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے نسخ کی طرف جائیں ۔ مقصد تو حق