کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 4
بیانات اور ان کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان نظاموں کا عملی وجود جہاں کہیں پایا جاتا ہے اسی شکل میں نافذ ہے، جس میں ان کے بانیوں نے پیش کیا ہے جن کی تفصیلات کو نظر انداز کر کے خیالی توجیہات سے ان بے خدا مادی نظاموں کو اسلامی قرار دینے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان کے مفاسد سے تنگ آئے ہوئے لوگ اسلام س بیزار ہو رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بے خدا مادی نظام اور حدّ اعتدال سے بھٹکی ہوئی افراط و تفریط کی راہیں ہیں جن کی اسلام سے کوئی مناسبت نہیں ۔ اسلام ان سے نہ صرف ہر لحاظ سے الگ ایک معتدل نظامِ زندگی ہے بلکہ اپنے نفاذ کے لئے بھی کسی دوسرے نظام کا محتاج نہیں کیونکہ اسلامی نظامِ حیات سب خوبیوں کا جامع اور ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر دنیا کے کسی نظام میں کسی خوبی کا وجود ممکن ہے تو وہ اسلام سے ہی مستعار ہے اس لئے ہمیں اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں کہ ہم دوسرے نظاموں کی خوبیاں تلاش کر کے انہیں اسلامی ثابت کریں ۔ اگر وہ چیزیں واقعی اسلام ہیں تو پھر ان کی اصطلاحات کی اسلام اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ صرف نظری طور پر دنیا میں موجود ہے بلکہ عملی طور پر بھی دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبودگی کا واحد ضامن پا چکا ہے۔ جمہوریت کا مکمل طور پر مطالعہ کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جس طرح سوشلزم اپنی رنگین مساوات کے نام پر اسلامی عدل و مساوات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا، اسی طرح جمہوریت، آزادی اور عوامی اقتدار کے نام پر کبھی اسلام نہیں بن سکتی۔ کیونکہ جمہوریت نہ صرف یہ کہ ایک مستقل مذہب کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس کی آزادی کے اصول اور عوامی اقتدار کا طریقہ کار بھی اسلام کے اصولوں اور طریقہ کار سے بلاکل مختلف ہے۔ کیونکہ جمہوریت (جس کا لازمہ سرمایہ داریت ہے) جہاں تک ایک فتنہ اباحیت اور آزادی کے نام پر پامالیٔ حقوق اور طبقاتی تقسیم جیسے مفاسد کا بڑا ذریعہ ہے۔ وہاں اسلام کی منضبط آزادی،