کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 34
رقصِ عسکری: جس سے مقصود صرف ایک سخت ورزش کرنا تھی۔ رقصِ منزلی: جس سے محض تفریح طبع کا کام لیا جاتا تھا۔ رقصِ دینی: جس کو اثنائے عبادات یا قربانیوں کے ذبح کے وقت ادا کیا جاتا تھا۔ قدیم تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحین اپنے دینی اجتماعات کے مواقع پر اکچر رقص کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں یہ قدیم رسم تھی کہ ان کی عمومی مجالس میں نانچنے والی لڑکیوں کی کئی ایک ٹولیاں رقص کے ذریعے زینتِ بزم کا سامان بہم پہنچاتی تھیں ۔ اہلِ عرب بھی دیگر اقوام کی طرح عادتِ رقص سے مامون نہ رہ سکے وہ بھی ایامِ جاہلیت میں اپنی مجالس دینیہ میں دیگر اقوام کی طرح ناچتے تھے۔ آج ہمارے نزدیک رقص ایک کھیل کود سے زیادہ وقعت نہیں رکھا۔ لیکن یورپین اس سے ریاضتِ جسدی کا کام لیتے ہیں ۔ انہوں نے نفسیات کے جملہ فنون کی طرح اسے بھی ایک نفسی فن قرار دیا ہے اور اس کے تمام اصول و ضوابط مدوّن کر چکے ہیں ۔ اور ان میں سے کوئی بھی پرہیز نہیں کرتا۔ برخلاف ہمارے کہ ہم اس کو نہایت شرمناک عادت قرار دیتے ہیں اور ہمارے مؤدبین محافل رقص میں ہماری شرکت تک کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جن کی تربیت ہی یورپین اخلاق کے مطابق ہوئی ہے یا جو ان کے ہمیشہ ہم صحبت و ہم نوالہ بنے رہتے ہیں اور اس میں کوئی جھگڑا ہی نہیں کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی مخصوص عادات و خصائل کا خوگر ہوتا ہے۔ ہاں مشرق و مغرب میں اعتبارِ رقص کا فرق بھی ان کے تمام فرقوں کی طرح جو حجاب، پوزیشن اور دیگر عادات میں پائے جاتے ہیں نمایاں طور پر جلوہ گر ہے۔ لیکن اہلِ مشرق حالتِ رقص میں اپنی عورات کی پردہ پوش میں اہلِ مغرب سے زیادہ با غیرت ہو رہے ہیں ۔ عبرانیین نے اگرچہ رقص کے معاملہ میں حد سے زیادہ مبالغ کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس کو حصولِ رضائے الٰہی کا ایک ذریعہ قرار دے دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے مرد، عورتوں کے ساتھ مل کر رقص نہیں کرتے۔ ہاں کبھی اقتصائے حال سے مجبور ہو کر ان کی دونوں صنفیں ایک ساتھ مل کر رقص کرتی ہیں لیکن احتیاط اس قدر ملحوظ ہوتی ہے کہ دونوں جنسیں علیحدہ علیحدہ ناچتی ہیں ۔ اس طرح شرق و غرب کے دیگر فرقوں کو بھی معلوم کر لیا کرو۔ فقط