کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 33
تاریخِ رقص جناب مولوی لطیف الدین صاحب لطیف رقص کب سے جاری ہے اور کن کن اغراض کے لئے یہ وجود میں آیا ہے، مندرجہ ذیل مضمون سے اس پر کافی روشنی پڑتی ہے اس کا ایک محرک ’’روحانی جذبہ‘‘ بھی ہے۔ ہمارے ہاں صوفیاء میں ’’وجد‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ ایک اہلِ ھوا کا شیوہ ہے۔ اور انہی کے طرزِ عمل سے ماخوذ ہے۔ اس لئے امامانِ دین نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ (ادارہ) رقص ایک نہایت قدیم عادت ہے۔ امم قدیمہ میں سے کوئی ایسی قوم نہیں ملتی جو اس کی عادی نہ ہو تلاش و تفحّص کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حرکات، رقص فطرتاً ان لوگوں میں پیدا ہو جاتی ہیں جو کسی شدید مسرت یا انبساط سے متاثر ہوتے ہیں ۔ عمیق غور و فکر کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تخلیق میں تکلم پر رقص مقدم ہے اس کا ثبوت سوائے قیاسات عقلی کے اور دیگر دلائلِ سے دنیا ممکن نہیں ، لیکن تاریخ سے نہایت قدیم زمانے میں مختلف قوموں کے نزدیک رقص کے شیوع کا پتہ چلتا ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا جس کو وہ اپنے معبودوں کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرتی تھیں ۔ توریت میں ہے کہ یہود خدا کی تسبیح و تقدیس رقص ہی کے ذریعہ کرتے تھے۔ قدمائے یونان نے اس کو اپنے طرزِ عمل سے اور زیادہ تقویت پہنچائی، یہاں تک کہ اُنہوں نے زندگی کی ہر اک حالت کے لئے مختص مخصوص رقصوں کو لابدی قرار دے دیا تھا کہ حالتِ مذکورہ اپنی دیگر متقابل حالتوں سے ممتاز ہو جائے (مثلاً فرحت، حزن، غضب وغیرہ) ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے۔ اس کے نزدیک شعر اور رقص دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں ۔ اہلِ سپارٹا اپنے بچوں کو ۵ سال کی عمر سے ہی رقص سکھانے لگتے ہیں ۔ عموماً لڑکوں کے باپ اور استاد گاتے تھے اور وہ خود ناچتے تھے، قدماء نے رقص کو تین مراتب میں تقسیم کیا تھا۔