کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 30
کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ امام مہدی شخص معین ہے تو پھر کون سے امور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اختلاف رفع کرنے کی خاطر ایک نیا مسئلہ پیدا کریں کہ مسیح اور مہدی ہزاروں آئیں گے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو اس مسئلہ میں تحقیق نصیب ہی نہیں ہوئی۔
4. یہ قول بھی غلط ہے کہ جس حدیث کو موطا نقل نہیں کرتا وہ حدیث ہی موضوع ہے۔ کیا اس کی بابت قرآن شریف میں وارد ہو چکا ہے کہ: لا رطب ولا یابس الافی کتاب مبین۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ صحاح ستہ موضوعات پر مشتمل ہوں ۔
5.یہ اصول بھی غلط ہے کہ جو احادیث صحیحین میں نہیں ہیں وہ مردود ہیں اور یہ اصول بھی غلط ہے کہ جو حدیثیں صحیحیں میں درج ہیں وہ تمام واجب القبول ہیں ۔ کیونکہ بقول مرزا صاحب (ازالہ نمبر ۲۲۶) بہت سی روایات ایسی ہیں کہ جن کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تسلیم نہیں کیا۔
6.یہ بھی غلط ہے کہ صحیحین میں امام مہدی کا ذِکر نہیں آیا۔ ان کی روایت ہے۔
کیف أنتم إذا نزل ابن مریم وإمامکم منکم، وعند مسلم فیقال لعیسٰی عمل بنا فیعتزرو بعضکم اولی ببعض فیقتدی المسیح بالمھدی (فتح الباری) اذا ینزل عیسٰی علی انیق (وھو جبل عند بیت المقّدس) وبیدہ حربۃ فیاتی بیت المقدس ویقتل الدجال والناس فی صلوۃ الصبح والامام یؤم بہم۔ (قنوی فتح الباری ص ۱۳۵)
7.یہ اُصول بھی غلط ہے کہ جس کتاب کے متعلق فصیل مذکور ہو تو دوسری کتابیں محمل ہو جاتی ہیں ۔ دیکھئے قرآن شریف میں تورات کے لئے دفعیہ تفصیل کل شیٔ مذکور ہے اور یا أخت ھٰرون کا لفظ تورات میں مذکور نہیں ہے بلکہ کسی صحیفۂ قدیم میں اس کا ذِکر نہیں ۔
8.یہ بھی اصول غلط ہے کہ جس کو ابنِ خلدون غیر محقق تصور کرے وہ واقع میں بھی ایسا ہو، کیونکہ وہ محض مؤرخ ہے۔ اس کا کوئی مقام نہیں ہے کہ اصحاب الحدیث کے مقابلہ اپنی تحقیق پیش کرے۔
9.امام شوکانی رحمہ اللہ نے پچاس روایات لکھی ہیں ۔ ملا علی قاری، ابن حجر، ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ سب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔