کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 23
اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا، تھرکنا اور جسم کی نمائش کرنا وغیرہ منکر سے مراد ہر وہ برائی ہے جس انسان بالعموم برا جانتے ہیں ، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔ بغی کے معنی ہیں ، حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر ست درازی کرنا خواہ وہ خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔ مندرجہ بالا بحث سے قول و فعل کے بگاڑ کی (الفحشاء، المنکر، البغی کے ضمن میں آنے والی) تمام صورتیں سامنے آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ بالا خرابیاں ایسی ہیں جن کی بدولت افرادِ انسانی اور جماعتوں کو ہر وقت مادّی اور روحانی نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ جب یہ افعال کسی قوم میں جڑ پکڑ لیں اور ان پر گرفت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پوری قوم اس کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور سارا معاشرہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قوم کی دینی اور دنیوی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور سعادت و اقبال کا دروازہ اس پر اس وقت تک کے لئے بند ہو جاتا ہے جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کر لے۔ اصلاح: جب ہم نے بگاڑ کا تعین کر لیا اور اس کے تفصیلی عناصر سے بھی واقفیت حاصل کر لی تو اب ہمارے لئے اصلاحی اقدام کا تعین بھی نہایت آسان ہے، مضمون کے آغاز میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اصلاح نام ہے، دوستی یا ازالہ فساد کا۔ لہٰذا معاشرے میں جہاں جہاں بھی فساد ہو گا۔ اس کو درست کرنے کا نام اصلاح ہو گا۔ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام جہاں جماعتی فلاح کا ضامن ہے۔ وہاں افراد کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ بلکہ فرد کی اصلاح کو اصلاح کا نقطۂ آغاز قرار دیتا ہے۔ کیونکہ فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ لہٰذا فرد کی اصلاح دراصل معاشرے کی اصلاح ہے۔