کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 22
’’بولیں کہ میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہو گا مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ میں بدکار ہوں ۔‘‘ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا  (البقرہ: ۹۰) ’’یعنی جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس سے انکار کرتے ہیں ، ضد کی وجہ سے۔‘‘ مذکورہ بالا آیات سے البغی کے جو معانی علم میں آتے ہیں وہ ہیں ، لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا، میانہ روی کی حد سے بڑھنے کی کوشش کرنا، کسی چیز کی طلب کے لئے انتہائی کوشش کرنا۔ حدود شکنی کرنا، بغاوت کرنا، بدکاری کرنا، ناجائز ضد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی تمام ایسی چیزیں ہیں جن سے مجتنب رہنے کی قرآن مجید نے تلقین فرمائی ہے۔ ان قرآنی اصطلاحات سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فحشاء میں جس برائی کا ذِکر کیا گیا ہے۔ وہ صرف ایک فرد کی ذات تک محدود ہے۔ مثلاً زنا، برہنگی، جھوٹی تہمت، شراب نوشی، چوری وغیرہ، انہیں حدیث شریف میں بھی فواہش کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ منکر میں پوری جماعت کی معاشرتی زندگی شامل ہوتی ہے۔ ایسی زندگی جو ناپسندیدہ افعال، غیر مانوس حرکات، ظلم و ستم، سنگدلی، برائیوں اور بے حیائیوں سے عبارت ہو۔ ’’بغی‘‘ میں ایسی برائیاں شامل ہیں جو جماعت سے بھی آگے بڑھ کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ۔ مثلاً چوری، قتل، ڈاکہ، بدکاری وغیرہ اور اس نوع کے دوسرے افعال جن سے اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ سید ابو الاعلیٰ موودی کے الفاظ میں الفحشاء، المنکر اور البغی کی تعریف: فحشاء کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، فعل قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا، اور بد کلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر اُبھارنے والے افسانے اورڈرامے، فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا۔ علی الاعلان مردوں