کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 21
كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ (المائدہ: ۷۹) ’’وہ ایک دوسرے کو برائی سے منع نہ کرتے تھے۔‘‘ شیطان کی پیروی کو بھی فحشاء اور منکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (النور: ۲۱) ’’اے ایمان والو شیطان کے نقش قدم پر مت چلو اور جس نے ایسا کیا بیشک وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ عرض المنکر ایک ایسا وسیع لفظ ہے جو ہر قسم کی برائیوں ، بے حیائیوں ، ناپسندیدہ اور غیر مانوس افعال کو محیط ہے اور اس سے بھی اجتناب کرنے کی قرآن مجید نے پرزور تاکید فرمائی ہے۔ انبغی: ابن کثیر بغی کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ فاما البغی فھو عدوان علی الناس (ابن کثیر ج ۲ ص ۸۲) ’’یعنی لوگوں پر ظلم و زیادتی ’’بغی‘‘ ہے۔‘‘ قرآن مجید میں ہے: خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍۢ (ص : ۲۲) ’’ہم دو جھگڑنے والوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کی ہے‘‘ ابن فارس نے اس کے دو معنی بیان کئے ہیں ۔ ۱۔ کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ ۲۔ بگڑ جانا۔ مطلق طلب کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے ابتغاء رحمۃ۔ ’’فئۃ باغیۃ‘‘ اس جماعت کو کہتے ہیں جو حدود شکنی کرے اور نظامِ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ سورہ مریم میں ’’بغیّا‘‘ کا لفظ بدکاری کے معنوں میں آیا ہے۔ قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا (مریم : ۲۰)