کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 20
مندرجہ بالا آیت میں تین قسم کی برائیاں بیان کی گئی ہیں اور وہ ہیں ۔ الفحشاء، المنکر اور البغی، اب ہم تھوڑی سی بحث اس بات پر کریں گے، کہ فحشاء، منکر اور بغی میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں ۔ الفحشاء: یہ لفظ فحش سے نکلا ہے۔ الفواحش اس کی جمع ہے۔ جس کے معنی حدود فراموشی کے ہیں ۔ زیادتی کر بیٹھنا، کسی بات سے تجاوز کرنا، گفتگو میں ادب و احترام کی حدود کو پھلانگ جانا (وغیرہ) بھی شاء ہی کے ضمن میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں فحشاء کے مقابلے میں عدل کا لفظ آیا ہے۔ لہٰذا فحش کے معنی حدودِ خداوندی سے تجاوز اور سرکشی کے ہیں ، سورۃ بنی اسرائیل میں ہے: وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلزِّنَىٰٓ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ فَٰحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلًا( بنی اسرائیل : ۳۲ ) ’’ اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔‘‘ عورتوں کے ضمن میں فاحشہ کا لفظ زنا کے لئے استعمال ہوا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ ( الانعام : ۱۵۱ ) ’’تم فواحش کے قریب نہ جاؤ خواہ وہ کھلے ہوں یا ڈھکے چھپے‘‘ غرض قرآن پاک میں فحش کا لفظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آیا ہے۔ نیز لفظ فواہش اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فاحشہ صرف زنا ہی نہیں بلکہ دوسرے بے حیائی کے کام بھی فاحشہ میں شامل ہیں ۔ سعت کے ساتھ اس کا اطلاق فحش گوئی اور فحش کاری پر ہوتا ہے جس کی ہر نوع سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو باز رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ المنکر: فحشاء کے بعد جس چیز سے باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے وہ منکر ہے۔ اس کے لغوی معنی ناشناسا کے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں معروف (شناسا) کا لفظ آیا ہے۔ جو کام ہر طبقہ میں ناپسند کیا جاتا ہے اور جس کا مرتکب سب کی نگاہوں میں گر جاتا ہے اس کو منکر کہا جاتا ہے۔ رذائل کے لئے قرآن پاک میں سب سے عام لفظ منکر ہے۔ چنانچہ سورۃ المائدہ میں جن برائیوں سے روک ٹوک نہ کرنے پر بنی اسرائیل کو ملامت کی گئی ہے ان کو اسی لفظ منکر سے تعیر کیا گیا ہے۔