کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 19
بھی اور اخروی بھی۔ اور شر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے لئے انفرادی یا اجتماعی رنگ میں ضرر رساں ہو، جس معاشرہ میں خیر و شر کی تمیز مٹ جائے (خیر اور شر کا معیار وحی الٰہی اور احکام قرآنی پر رکھا جائے گا) وہ ضلالت اور گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ افراد کی نظر میں نیکی نیکی اور بدی بدی نہیں رہتی اور لوگ صرف ظاہری منفعتوں کے زیر اثر کام کرتے ہیں ۔ ایسی قوم اور ایسے معاشرے کا زوال یقینی اور حتمی ہو جاتا ہے۔
معاشرے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اگر اس میں ایسے لوگ بچ بھی جائیں ۔ جو خیر و شر میں تمیز کر سکتے ہوں تو بھی شر کے غلبے، معاشی لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی اقدار کو مٹتے دیکھ کر ہمت ہار بیٹھیں اور کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔ ایسے حالات میں اصلاح کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہتی اور بالآخر معاشرہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ ہیں وہ محرکات اور وجوہات جو فکر و نظر میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں ۔ لہٰذا ایسی کیفیت سے معاشرے کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان کا مقصدِ زیست تعمیری اور اخلاقی ہو۔ وہ خدا، آخرت اور بامقصد زندگی پر ایمان رکھے۔ اور شرک سے اپنا دامن ملوث نہ ہونے دے۔
قول و فعل کا بگاڑ:
فکر و نظر کا بگاڑ قول و فعل کے بگاڑ کی بنیاد ہے کیونکہ انسان کا کردار نظریات کے خمیر سے اُٹھتا ہے۔ ماحول اور حالات اسے پختہ کر دیتے ہیں اور انسان کی اپنی کوشش اسے پائیدار بنا دیتی ہے۔ قول و فعل کے بگاڑ میں بے شمار چیزیں گنوائی جا سکتی ہیں لیکن قرآن پاک نے خیر شر کے جملہ پہلوؤں کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (سورة النحل : 90)
’’بیشک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قریبیوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور فحشاء، منکر اور بغی سے روکتا ہے، اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے، تاکہ تم نصیحت مانو‘‘