کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 18
سے بالکل ہی کنارہ کش ہو جائے گا۔ اور ایک با مقصد زندگی گزارنے کی بجائے بیابانوں اور ویرانوں کی خاک چھانتا نظر آئے گا۔ لیکن اسلام کا تصورِ حیات ان ہر دو صورتوں سے بیزار ہے۔ وہ تو انسان کو صحیح مقصدِ حیات سے ہمکنار کرنے کی خاطر ایک مبنی بر اعتدال و توازن راست پر چلنے کے لئے زور دیتا ہے۔ وہ انسان کو ایک ایسا اچھوتا نظامِ حیات بخشتا ہے جو انسانیت کے لئے ہر طرح سے اطمینان و تسکین کا حامل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں ایک مقام پر اپنے نیک بندوں کی پسندیدہ حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ (سورة الانعام : ١٦٢) (یعنی میری نماز قربانی اور یات و ممات سب اللہ ہی کے لئے ہیں ) وہیں ایک دوسرے مقام پر یہ بھی ارشاد فرما دیا ہے کہ: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ( الحج: 11) ’’کچھ آدمی اللہ کی بندگی کنارے پر کرتے ہیں پھر اگر وہ بھلائی سے ہمکنار ہوئے تو اطمینان پاتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش آپڑی تو منہ کے بل پلٹ گئے۔ یہ تو دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا ہے اور صریح نقصان۔‘‘ آپ انسان کی ان ہر دو حالتوں کو جائز لیجئے اور اس کے بین بین ایک راہِ اعتدال متعین کر لیجئے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی نظر میں بامقصد زندگی کا شعور اور اعلیٰ اور ارفع معیارِ حیات کا تصور کیا ہے۔ اور پھر اس بات کا سمجھنا بھی کچھ مشکل نہ ہو گا کہ اس معیارِ حیات کے تصور سے منحرف ہونے والے افراد یا معاشرہ کبھی پنپ نہیں سکتے۔ خیر و شر کی تمیز سے انکار: خیر کے معنی بھلائی کے ہیں اور شر اس کی ضد ہے، خیر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے لئے انفرادی یا اجتماعی افادیت کی حامل ہو۔ یہ افادیت مادی بھی ہو سکتی ہے اور روحانی بھی، دنیوی