کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 17
مذہبی عہدہ داروں کی خدائی کا جواء مسلط ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ تو علوم و فنون ہی ترقی پاتے ہیں اور نہ ہی درست فلسفہ، صالح ادب اور تمدن و سیاست کے لئے فضا ہموار ہوتی ہے۔ انسایت گمراہی اور دھوکے کا شکار ہو کر خود اپنے ہی خلاف جنگ کرنا شروع کر دیتی ہے، اور بالآخر انہی راہوں پر گامزن ہو جاتی ہے جن کا ذکر اکارِ خدا کے ضمن میں کیا گیا ہے۔
انکارِ آخرت:
انکارِ آخرت بھی، انکارِ خدا اور شرک ہی کی ایک کڑی ہے۔
آخرت اصل میں نام ہے اعمال و افعال کے اس نتیجے کا جو اس دنیا میں ہم کر رہے ہیں اور اگر جزا و سزا کا تصور سرے سے ذہن میں موجود ہی نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ نیکی صرف دنیاوی فوائد اور برائی صرف دنیاوی نقصانات تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ ان حالات میں انسان کی حالت دو حال سے خالی نہ ہو گی۔ حالات ناموافق ہوں گے۔ تو نیکو کاری کے نتائج ظاہر نہ ہونے پر اس کی قوتِ عمل سرد پڑ جائے گی اور وہ برائی کی طرف مائل ہو جائے گا اور سازگار حالات کی صورت میں انسان نفس پرست بن جائے گا۔ اور دنیاوی خواہشات و لذات حاصل کرنے کے لئے جائز و ناجائز ذرائع کا استعمال شروع کر دے گا۔ اور یہ دونوں صورتیں انسایت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں ۔ یہ تو رہا انفرادی زندگی کا ماملہ اور اگر کہیں پوری سوسائٹی کے افعال و اعمال کا دارومدار اسی اعتقاد پر ہو تو پورا معاشرہ خود غرضی اور نفسانیت کی لپیٹ میں آئے گا۔ اور ایسے معاشرہ کے انجام کا تصور کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔
بامقصد زندگی سے انکار:
جب تک انسان کے سامنے کوئی واضح لائحہ عمل اور نصیب العین نہ ہو گا۔ انسان کا کوئی عمل بھی تنظیم و انضباط سے ہمکنار نہ ہو سکے گا۔ اور اس کی زندگی صرف کھانے پینے اور خواہشات سے متمتع ہونے سے عبارت ہو کر رہ جائے گی۔ اور یا پھر کوئی انتہا پسند یا کوئی سر پھرا انسان جو اپنے آپ کو پیدائشی مجرم تصور کرتا ہے، اس جرم کی سزا بھگتنے کے لئے خواہشات و لذّات