کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 16
کی بنا پر وضع کئے جائیں گے۔ بااختیار و اقتدار وہی لوگ سمجھے جائیں گے، جو طاقتور اور چالاک ہوں گے۔ سوسائٹی کی راہ نمائی ان لگوں کے ہاتھ میں ہو گی جو مکار، جھوٹے، دغا باز، سنگدل اور خبیث النفس ہوں گے۔ جن کی کتابِ آئین میں طاقت کا نام حق و صداقت اور کمزوری، محرومی اور بیچارگی کا نام باطل ہو گا۔ غرض معاشرت اور طرز تمدن کا پورا نظام نفس پرستی پر قائم ہو ا اور اجتماعیت چند آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک منظم چراگاہ ہو گی۔ شرک: انکارِ خدا کے بعد فکری بگاڑ کی دوسری وجہ شرک ہے۔ ایسے لوگ یقیناً کم ہوں گے جو خالقِ عالم اور قادرِ مطلق کے وجود کے منکر ہوں گے لیکن ایسے لوگ بکثرت مل جائیں گے جو شرک کی بھول بھلیوں میں سرگرداں ہیں ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو مبعوث فرما کر مشرکین کے خلاف حجت قائم فرما دی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ کچھ وجود، خدا کی صفات و اختیارات میں کسی نہ کسی طرح شریک ہیں ، باوجودیکہ قرآن مجید نے شرک کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ شرک کے تصور کے زیرِ اثر انسان جو طرزِ عمل اختیار کرتا ہے۔ اس سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ انسان کی پوری زندگی اوہام کی آماجگاہ بن جاتی ہے وہ اچھے اثرات کی موہوم امیداور برے اثرات کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنی بہت سی قوتیں لا حاصل طریقے سے ضائع کر دیتا ہے۔ کبھی کسی قبر سے امید لگاتا ہے، کبھی بتوں پر بھروسہ کرتا ہے، کبھی کسی برے شگون سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے اور کبھی خیالی قلعے تعمیر کرتا ہے، غرضیکہ شرک انسان کو فطری طریقے سے ہٹا کر غیر فطری راستے پر لا ڈالتا ہے اور انسان کی زندگی میں پوجا پاٹ، نذر و نیاز اور دوسری غیر شرعی رسموں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں الجھ کر انسان کی سعی و عمل کا ایک حصہ بے نتیجہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چالاک لوگ مشرکانہ توہم پرستی کے جال میں لوگوں کو پھانس کر لوٹ کھسوٹ شروع کر دیتے ہیں ، شرکیہ عقیدے کی بدولت عام انسانوں کی گردنوں پر شاہی خاندانوں ، روحانی پیشواؤں اور