کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 15
اب ہم مختصر طور پر فکر و نظر کے بگاڑ کی مندرجہ بالا صورتوں کا جائزہ لیں گے۔
انکارِ خدا:
ایک غلط طرزِ فکر کا حامل ذہن جب کائنات اور اپنی زندگی کے متعلق سوچتا ہے۔ تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ تخلیق کائنات کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی کائنات کا کوئی خالق ہے اور اگر ہے تو بھی انسانی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اس بیہودی و بے راہ ذہن کی نظر میں انسان کی حیثیت ایک جاندار مخلوق سے زیادہ نہیں جس کی پیدائش کسی خاص حادثہ کا نتیجہ ہے اور جس کا نظامِ یات بھی کسی حادثہ ہی کا شکار ہو کر ختم ہو جائے گا۔
اس کے خیال میں انسان کا کوئی مالک، مختار اور حاکم نہیں جس کے سامنے وہ جواب دہ ہے اور نہ ہی اس کی نظر میں انسایت کے لئے کوئی سرچشمہ ہدایت موجود ہے، لہٰذا قانون بنانا، اپنی قوتوں کا مصرف تجویز کر کے انہیں بروئے کار لانا اور اپنے لئے راہِ عمل متعین کرنا اس کا اپنا کام ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان جب اس طرزِ فکر کو اپنا کر اپنی عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو لا محالہ غلط طرزِ عمل اختیار کر گا اور یہ چیز لازمی طور پر ایک غلط معاشرہ کی تشکیل و تعمیر پر منتج ہو گی۔ نظریہ اکار خدا کا اگر ہم تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس کی وجہ سے انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ، اس کی اجتماعی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ انفرادی زندگی میں جب انسان خود ہی اپنے لئے راہِ عمل اختیار کرے گا، خود ہی قوانین مرتب کرے گا، خود ہی اصولِ زندگی وضع کرے گا۔ اور اپنی خواہشاتِ نفسانی اور مقتضائے جسمانی کا حل اپنے ہی ذہن سے تلاش کرے گا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ایک خود غرض، مادہ پرست، ابن الوقت اور عملی طور پر بالکل ایک شتر بے مہار کی طرح ہو جائے گا کہ جو راہ چاہے اپنے لئے متعین کرے اور جو بھی طرزِ عمل چاہے اختیار کرے۔
چنانچہ جب ایسی انفرادی زندگی، اجتماعی طرزِ حیات کا رنگ اختیار کرے گی، تو نتیجہ یہ ہو گا کہ سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر ہو گی، تمام اصول و قوانین، خواہشات اور تجرباتی مصلحتوں