کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 14
اصلاح معاشرہ کا اسلامی تصور
سلسلہ کے لئے ملاحظہ ہو، جلد ۱: ۳،۲ برائے جنوری، فروری ۱۹۷۱ء
پروفیسر خالد علوی (ایم اے۔ ایم او ایل) ترتیب و اختصار: اکرام اللہ ساجدؔ کیلانی قسط نمبر ۲ (آخری)
فکر و نظر کا بگاڑ:
انسانی زندگی چونکہ بنیادی طور پر نظریات پر استوار ہے، اس لئے نظریات و افکار میں بگاڑ انسان کی پوری سیرت و کردار کو متاثر کرتا ہے۔ جب ہم کسی معاشرے کا تجزیہ اس پہلو سے کرتے ہیں تو اس میں افراد کی نظریاتی و فکری کیفیتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
فکری بگاڑ میں سب سے پہلی زد انسان کی اپنی شخصیت پر پڑتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کبھی تو وہ اپنے متعلق غلط فہمی کا شکار ہو کر ’’أنا ربکم الأعلٰی‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے۔ اور کبھی اپنے آپ کو مرتبۂ انسانیت سے بھی گرا کر، اپنی ہی جیسی مخلوق کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے (قرآن پاک نے انسان کی اس ذہنی کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔
’’ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُـمْ اَضَلُّ ‘‘ (سورۃ الاعراف :179 )
’’یعنی یہ لوگ انسان ہونے کے باوجود حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ جنہیں اپنی حیثیت کا احساس تک بھی نہیں )‘‘
انسان کی یہ روش اس کے غلط طرزِ فکر کا ہی نتیجہ ہے جس میں انکارِ خدا، شرک، انکارِ آخرت، خیر و شر کی تمیز سے انکار، بامقصد زندگی سے انکار اور انسان کی اصل حیثیت اور مرتبہ سے انکار سب شامل ہیں ۔ فکر و نظر کے اس بگاڑ سے انسانی زندگی کے جملہ احوال متاثر ہوتے ہیں اور اس کا اثر معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر غالب ہوتا ہے۔