کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 13
اولیاء اگر پوری اسلامی ہدایات پر عمل کریں تو عورتیں غلط کاری اختیار نہ کریں ۔ اولیاء پر فرض ہے کہ لڑکی لڑکا جوان ہوتے ہی ان کی شادی کا انتظام ان کی پسند کے مطابق کر دیں تو ان شاء اللہ اکثر بدکاری تک نوبت نہ پہنچے گی۔ اولیاء اکثر غفلت برتتے ہیں ۔ یا کوئی طمع کرتے ہیں یا کسی قسم کی خود غرضی مقصود ہوتی ہے تو نکاح میں دیر کرتے ہیں ۔ اس طرح عورتیں تنگ آجاتی ہیں اور بدکاری میں پھنس جاتی ہیں ۔ اگرچہ بدکاری کے اور بھی کئی اسباب ہیں لیکن یہ بھی ایک بڑا سبب ہے لہٰذا اولیاء کو اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے ورنہ وہ ولی مرشد (خیر خواہ) نہ رہیں گے اور حدیث میں ولی کا مرشد ہونا آیا ہے لہٰذا ایسے حالات میں عورت کو اپنا نکاح خود کرنے یا بدکاری کی طرف پڑنے کی بجائے دوسرے اقرب اولیاء کو توجہ دلانی چاہئے۔ اگر کوئی اسے بے باکی پر محمول کرے تو اسے سوچنا چاہئے کہ یہ اس بے حیائی سے بہت کم ہے جو مردوں کے ساتھ بھاگ جانے اور دوسرے غلط راستوں سے اسے اختیار کرنی پڑتی ہے جبکہ مذکورۃ الصدر بے باکی شریعت کی نظر میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔
عورت کے اولیاء کی بلحاظ رتبہ تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ باپ یا بیٹا علی الاختلاف۔ ۲۔ بھائی۔ ۳۔ چچا۔ ۴۔ بھتیجا وغیرہ
اسی ترتیب سے جس ترتیب سے وہ وارث ہوتے ہیں ۔ ذوی الارحام ماموں وغیرہ کے متعلق اسی طرح اختلاف ہے جس طرح وراثت میں ہے۔ آخری ولی، برادری کا سربراہ یا حاکم ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
السلطان ولي من لا ولي لہ یعنی حاکم اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں ۔
ولی کے بغیر عورت کا نکاح اب کئی مختلف صورتیں اختیار کر گیا ہے۔ مثلاً عدالتی نکاح (سول میرج) وغیرہ ان سب کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لئے حیلے بہانے تلاش کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔
ھذا ما عندي واللّٰہ عندہ حسن الصواب