کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 12
میں خود مختار ہونا بے حیائی ہے جس کا مدار قلت یا پر ہے اور اولیاء کی مخالفت اور ان کی بے قدری پر ہے اور نیز یہ بات ضروری ہے کہ بہ سبب شہرت کے نکاح زنا سے ممیز ہو جائے اور شہرت کی عمدہ صورت یہ ہے کہ عورت کے اولیاء نکاح میں موجود ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شوہر رسیدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر اور باکرہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور اس کی اجازت اس کا چپ ہو جانا ہے اور ایک روایت میں ہے باکرہ سے اس کا والد اجازت لے۔‘‘ میں کہتا ہوں صرف اولیاء کو مختار بنانا ہی جائز نہیں ہے کیونکہ عورت اپنا نفع و نقصان جس قدر جانتی ہے وہ نہیں جانتے اور نیز نکاح کا نفع و نقصان خاص اسی کی طرف رجوع کرتا ہے، اور استیمار سے مراد عورت کے حکم کا صراحتاً طلب کرنا ہے اور استیذان سے مراد، اس سے اجازت طلب کرنا اور اس کا منع نہ کرنا ہے اور اس کا ادنیٰ مرتبہ سکوت ہے۔‘‘ [1] شاہ صاحب نے میرے مضمون کی پوری تائید فرما دی ہے کہ عورت ناقص و کمزور عقل ہے اکثر وہ اپنی مصلحت اور فائدہ کو نہیں سمجھتی لہٰذا وہ ولی کے بغیر نکاح نہ کرے۔ نیز ولی بھی اس کی اجازت اور پسند بغیر نکاح نہ کرے جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں ذِکر کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ الحاصل جو نکاح بھی بغیر اجازت یا شرکت ولی کے کیا جائے وہ شرعاً نکاح نہیں ہوتا بلکہ وہ زنا کے حکم میں ہے۔ سول میرج کا یہی حکم ہے۔ تنبیہ: اگر شریعت کی پوری پابندی کی جائے تو غلط کاریاں ظہور پذیر نہیں ہوتیں ۔ یعنی
[1] حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۳۶۹