کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 11
نیز صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اس پر متفق ہیں اور کسی سے اس کا خلاف ثابت نہیں اور بعض تابعین سے بھی یہی مروی ہے جیساکہ جامع ترمذی کی مذکورہ عبارت سے واضح ہے اور ائمہ ثلاثہ مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ باقی رہے بعض علماء حنفیہ وغیرہ تو ان کا قول قرآن و حدیث کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
میں نے اپنے مضمون کے شروع میں عورتوں کے ناقص العقل وغیرہ ہونے کے الفاظ لکھے تھے۔ بعض مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا دعویٰ کرنے والی عورتیں شاید ان الفاظ کو اپنی توہین خیال کریں لیکن ایسے الفاظ قرآن و حدیث میں آئے ہیں ۔ اور علماء نے اسرارِ شریعت بیان کرتے ہوئے اسی طرح لکھا ہے۔ چنانچہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی عبارت کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں ، جو میرے مضمون کی تائید ہے۔ حجۃ اللہ البالغہ مترجم ج ۲ ص ۳۲۹ میں ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘
واضح ہو کہ نکاح کے بارہ میں تنہا عورتوں کو مختار بنانا درست نہیں ہے کیونکہ ان کی عقلیں ناقص ہوتی ہیں اور ان کا فکر بھی کمزور ہوتا ہے۔ پس بسا اوقات ان کو مصلحت معلوم نہیں ہوتی اور اکثر ان کو شرافت کا لحاظ نہیں ہوتا۔ پس بسا اوقات ان کو غیر کفو میں رغبت ہو جاتی ہے اور اس میں ان کی قوم کو عار ہوتی ہے۔ اس واسطے ضروری ہوا کہ اس باب میں اولیاء کو بھی کچھ دخل ہوتا کہ یہ فساد بند ہو اور نیز ضرورتِ جبلّیہ کے اعتبار سے لوگوں میں عام طریقہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر اختیار ہوتا ہے اور ہر امر کا بندوبست انہیں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے تمام اخراجات مردوں کے ذمہ ہوتے ہیں اور عورتیں ان کی مقید ہوتی ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس سبب سے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال میں سے خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
اور نیز نکاح کے اندر ولی کی شرط لگانے میں مردوں کی عظمت ہے اور عورتوں کا نکاح