کتاب: محدث شمارہ 10 - صفحہ 10
بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ۔ ان میں سے سعید بن المسیب، حسن بصری، شریح ابراہیم النخعی، عمر بن العزیز وغیرہم ہیں اور سفیان ثوری، اوزاعی، مالک، عبد اللہ ابن مبارک، شافعی، احمد، اور اسحاق بھی یہی فرماتے ہیں ۔‘‘
اس بارت میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے صحاہ کے ساتھ بض کا لفظ استعمال نہیں کیا اور فقہاء کے ساتھ بض کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ صحابہ اس مسئلہ میں سب متفق ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بھانجیوں بھتیجیوں کے نکاح کا سارا معاملہ خود طے کر لیتی تھیں لیکن جب عقد نکاح کا وقت آتا تو کسی مرد کو بلا کر فرماتی تھیں کہ یہ تم کرو کیونکہ میں عورت ہوں اور عورت نکاح میں ولی نہیں ہو سکتی۔
اور جن صحابہ سے صراحتاً یہ مسئلہ مذکور نہیں ان سے بھی اس کا خلاف ثابت نہیں ۔
چنانچہ سبل السلام میں ہے:
وحکی من ابن المنذر أنہ لا یعرف عن أحد من الصحابۃ خلاف ذلک وعلیہ دلت الأحادیث
’’یعنی ابن منذر فرماتے ہیں کہ کسی صحابی سے اس کا خلاف ثابت نہیں گویا صحابہ کا اس پر اجماع ہے۔‘‘
نیز کتبِ حدیث صحاح ستہ میں یہ باب تو جابجا ملتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں لیکن غالباً کسی محدث نے یہ باب نہیں باندھا کہ بغیر ولی کے نکاح جائز ہے۔ یہ اس پر دال ہے کہ محدثین کے نزدیک نکاح بغیر ولی کے جائز نہیں ۔
میں اس وقت ایسے مقام پر ہوں کہ میرے پاس حوالہ کی کتابیں معدودے چند ہیں اور میں بیمار ہوں ۔ ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے شمارہ اکتوبر میں اس مضمون کا ختم کرنا ضروری ہے اس لئے میں فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔
حاصل یہ کہ مذکورہ دلائل قرآن و حدیث سے واضح ہو گیا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ،