کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 8
طائفہ سے مراد ایک جماعت، مٹھی بھر لوگ، ایک سے لے کر ہزار تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، ساری دنیا کے مقابلہ میں جس طرح صحابہ کی ایک مختصر سی جماعت تھی، یہی حال اِس طائفہ کا رہے گا اس لئے اہل باطل کی کثرت سے انہیں غلط متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ (مختصراً) امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ گروہ مسلمانوں کے مختلف طبقات میں منتشر ہو گا، مجاہد، فقیہ، محدث، زاہد، امر بالمعروف کرنے والوں میں ملے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ لوگ کسی ایک جگہ جمع ہوں، بلکہ روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہوں گے۔ (ملخصاً) یحتمل ان یکون ہذہ الطائفۃ متفرقۃ فی انواع المومنین ممن یقیم امر اللّٰہ من مجاہد وفقیہ و محدث وزاہد واٰمر بالمعروف و غیر ذلک من انواع الخیر ولا یلزم اجتمعھم فی مکان واحد بل یجوز ان یکونوا متفرقین فی اقطار الارض (حاشیہ ابن ماجہ) اس سے میری گزارشات کی تائید ہوتی ہے کہ، مختلف زمانوں میں، مختلف صورتوں میں یہ تحریک چالو رہی ہے اور اب بھی ہے اور باد مخالف کے تیز و تند اور شوخ جھونکوں سے یہ مشعل بجھے گی نہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ، ایسا ہی ہوا ہے اور اس کا مصداق جماعت اہلحدیث کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا۔ بہرحال دنیاکے حالات اب بدل گئے ہیں اس لئے اس تحریک کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات میں دیا کے سامنے ’’مشعل ہدایت‘‘ پھر سے روشن کر کے اپنے وجود اور تشخص کا ثبوت دے۔ غرض یہ ہے کہ وہ ’’نسبت عظمی‘‘ پھر سے ہاتھ آجائے جو تمام نسبتوں سے عظیم تر بھی ہے اور دارین کی فوز و فلاح کی ضامن بھی۔ بے آمیز بھی ہے اور قلب و نگاہ کی مسلمانی کے لئے ضروری بھی۔ ہمارے نزدیک یہ رابطہ اور نسبت اس کردار اور فریضہ کی تجدید کی توفیق بھی عطا کرتی ہے جو ہمارے تمام امراض کی دوا اور سارے روگوں کی شفا بھی ہے۔ اِس مقام رفیع اور بہشت بریں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مناسب وسائل کی بڑی ضرورت ہے۔ اِن میں سے ایک اہم ذریعہ ’’پریس‘‘ بھی ہے۔ گو یہ سبھی کچھ نہیں ہے تاہم بہت کچھ ہے۔ اس لئے