کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 7
وہ قائل تھے۔ جب دنیا اس طرزِ فکر سے ہٹ کر کسی فقیہ کی رائے کے گرد منڈلانے لگی تو ’’محدثین‘‘ کے روپ میں ان کا محاسبہ کیا۔ کتاب و سنت کے ذریعے ان کی خوش فہمیوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ دینی عقائد کو عصری زبان اور مروج فلسفہ کے مسلمات کے ذریعے سمجھنے کا نام ’’علم کلام‘‘ ہے۔ لیکن جب دنیا نے اسے معارِ حق بنا لیا تو ’’سلفی سادگی‘‘ سے مسلح ہو کر ان کا خوب مواخذہ کیا۔ مسلمان صرف ’’مسلم‘‘ ہے۔ تمام شخصی نسبتوں سے بالا تر اور کتاب و سنت کی غلامی کے لئے یکسو ہے۔ لیکن اس کے بجائے جب دوسری شخصی نسبتوں نے سر اُٹھایا اور حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اشعری ماتریدی، چشتی قادری، سہروردی، نقشبندی وغیرہ کہلانے لگے تو ’’اہل حدیث‘‘ نے سلفی اور محمدی کہلا کر دنیا کو عار دلائی کہ اس عظیم نسبت کو چھوڑ کر دوسری ادنی نسبتوں سے جی بہلانا کچھ ہوش اور ذوق کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ سبھی کچھ اتستبدلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر کے مترادف ہے۔ الغرض اہل حدیث ایک ذہن اور فکر و ذوق کی تحریک ہے جو روز اوّل سے اب تک حسب حال اور حسب ضرورت متحرک اور کار فرما ہے اور تا قیامت کار فرما رہے گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد میں مندرجہ بالا کیفیت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا:۔ لا تزال طائفۃ من اُمتی ظاھرین علی الحق (بخاری) میری امت میں ایک گروہ حق پر سدا قائم رہے گا۔ ابن ماجہ کی روایت میں یوں مروی ہے۔ لا تزال طائفۃ من امتی قوامۃ علی امر اللّٰہ لا یضرھا من خائفھا (ابن ماجۃ ابو ھریرۃ) میری امت کا ایک گروہ اللہ کے حکم پر سدا ثابت قدم رہے گا اور اس کی مخالفت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ ابن ماجہ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ:۔