کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 6
اور اکابر صوفیا کا یہی نظریہ اور یہی مسلک تھا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ دنیا اس باب میں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لئے دور جا پڑی ہے کہ اس نے اس عظیم نسبت کا بجا احترام ملحوظ نہیں رکھا اور مسائل کو ان کے باہمی تفاضل کی نذر کر کے سست ہو گئی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ تنزل کی ابتداء ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہے۔ پہلے سادہ سے امور میں گرفت ڈھیلی پڑتی ہے۔ پھر بتدریج وہ عظیم حقائق بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، جن کے بغیر ’’مسلمانی‘‘ ایک تہمت اور الزام بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک وہ تاریخی حقیقت ہے جو تاریخ امم کے ہر موڑ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
بس اسی اسلوب فکر، انداز نظر، اسی نہج پر مجاہدہ اور ذوق و احساس کی اسی جلوہ گری کا نام اہل حدیث ہے۔ جو ایک فرقہ کی صورت میں تو شاید آپ کو یہ جماعت کہیں نظر نہ آتی ہو لیکن ایک تحریک مسلسل کی شکل میں پوری ملت اسلامیہ میں تاہنوز جاری و ساری ہے۔ چونکہ یہ کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تحریک محتسب اور فکر انگیز ذہن ہے، اس لئے مختلف اوقات میں اس نے جو فریضہ انجام دیا ہے اس کے مظاہر بھی مختلف ہو گئے ہیں۔
جب امت میں بازارِ عمل ٹھنڈا ہونا شروع ہوا اور مسلمان حکومتیں ’’اسلامی فکر و عمل‘‘ کی نگرانی اور سرپرستی کرنے سے غافل ہو گئیں تو ’’تصوف‘‘ (جس کو احسان کہتے ہیں) کے روپ میں اُبھر کر گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دیا، جب اس بے آمیز تصوف (درجۂ احسان) کا حشمۂ صافی مکدر ہو کر خانقاہیت میں تبدیل ہونے لگا تو اس کی تطہیر کے سامان کئے۔
کتاب و سنت میں بعض امور کی تصریح نہ ملنے پر سیاسی شاطروں نے طبع زاد اور خانہ زاد ٹانکے لگائے، صَلُّوْا فاضلو۔ ایسے حال میں اس تحریک نے دنیا کو ’’تفقہ‘‘ کے آئینہ میں کتاب و سنت کی روشی مہیا کی۔ تفقہ دراصل قرآن و حدیث کی تلمیحات کی تشخیص اور تعیین کا ایک اسلوبِ نگاہ ہے اور اس فریضہ کا اتمام صرف وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں، جن کو قرآن و حدیث سب سے زیادہ عزیز اور اساس دکھائی دیتے ہیں اور یہ ایک واقعہ ہے کہ جن امامانِ دین نے یہ خدمات انجام دیں، وہ کسی کے مقلد نہیں تھے اور نہ ہی کسی شخصی آراء کے پیمانوں سے قرآن و حدیث کو تولنے کے