کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 5
ٹل جاتا جس میں شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ لوگوں نے کتاب و سنت کے ساتھ کچھ اور ٹانکے لگانے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ایک اور بات جس نے جماعت اہل حدیث کو دوسرے مکاتب فکر سے ممتاز کر دیا ہے، یہ ہے کہ، ان کے نزدیک: اسلام ایک ایسا ہمہ گیر نظام حیات ہے، جس کی ہر کڑی قابلِ احترام اور سراپا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے چھوٹے سے چھوٹے جزئیہ کی راہ میں بھی مناسب اور ممکن جہاد کیا ہے۔ دنیا جن فروعی امور میں ’’تساہل‘‘ گوارا کر لیتی ہے۔ یہ جماعت ان کے بارہ میں حد درجہ ’’حساس‘‘ واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ کسی باب میں جب کسی امر کا انتساب قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ثابت ہو جاتا ہے۔ تو وہ گو بظاہر کتنی ہی فروعی بات ہو وہ عظیم متاعِ ایمان بن جاتی ہے۔ دراصل امور دین میں جو ’’تفاضل‘‘ نظر آتا ہے وہ ان کی باہمی نسبت سے ہے ہمارے اخذ و ترک یعنی اتباع کے اعتبار سے نہیں ہے۔ ہمیں تو بہرحال ان کا اتباع ہی کرنا ہے۔ اور ان سب کو دین ہی سمجھنا ہے۔ جیسا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مابین تفاضل کی کیفیت ہے۔ لیکن ان کے مابین تفاضل کے یہ معنی قطعاً نہیں ہیں کہ ان میں سے بعض کا احترام تو عین ایمان ہو اور بعض کا نہ ہو۔ بس جماعت اہل حدیث کے اس موقف کو نہ سمجھ سکنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہر طرف سے یہ شور برپا ہے کہ یہ بڑی متشدد اور تنگ نظر جماعت ہے۔ آمین اور رفع یدین جیسے فروعی مسائل کے لئے بھی ماریں کھاتی ہے اور ان کے جائز حق کے لئے جانیں لڑاتی ہے۔ دراصل سوال یہ نہیں کہ ان مسائل کی اپنی جگہ اپنی منفرد حیثیت کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ ان امور کو جس ذاتِ گرامی سے نسبت ہے وہ نسبت کتنی عظیم ہے؟ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اس نسبت کا احترام دوسرے تمام مصالح پر بھاری ہونا چاہئے ورنہ ایمان کی سب عافیتیں خطرہ میں پڑ جائیں گی اور مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ کیونکہ اس باب میں تساہل کا اثر اس ’’رابطہ‘‘ پر پڑتا ہے جو ایک امتی کو اپنے رسول پاک سے ہوتا ہے۔ حضرات خلفاء راشدین، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت امام احمد رحمہ اللہ ، محدثین