کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 40
کئے گئے مگر وہ ہر بار بال بال بچ گئے۔ جہازوں کو اغواء کرنے کا مقصد ایک طرف تو اپنی جرأت و دلیری کا دنیا میں سکہ بٹھانا تھا اور دوسری طرف بیرونی طاقتوں کو اپنے باشندوں کو رہا کرانے کے لئے اردن میں براہِ راست مداخلت کے لئے دعوت دینا تھا۔ اس طرح سے ان کے سامنے ایک ایسی صورتِ حال پیدا کرنا تھی جس سے مشرقِ وسطیٰ کو مسلسل جنگ کی لپیٹ میں لانا تھا۔ جہاں تک فلسطین کو آزاد کرانے کا تعلق ہے، اس سے سب تنظیمیں متفق ہیں مگر ان میں طریق کار کا اختلاف ہے۔ انتہاء پسند سوشلسٹ کا تعلق براہ راست ماؤ س ہے۔ چنانچہ جب تنظیم کے افراد کو فوجی تربیت دی جاتی ہے تو ان کے ہاتھوں میں ماؤ کی کتاب ہوتی ہے۔
شاہ حسین کی حکومت، سعودی عرب کے سوا، واحد حکومت ہے جو عرب حکومتوں میں سوشلسٹ نہیں ہے۔ حریت پسند انتہاء پرستوں کی طرف سے ہمیشہ اس کومت کی مخالفت کی گئی ہے۔ اُردن میں گاہے گاہے جو خانہ جنگی ہوتی رہی ہے وہ انہی لوگوں کا کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ سعودی حکومت کو بھی اسی نہج پر لانا چاہتے ہیں لیکن ابھی وہ یہاں ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
اُردن میں خانہ جنگی:
موجودہ خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی جب صدر ناصر اور شاہ حسین نے امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں امن منصوبہ کی بات چیت کو قبول کر لیا۔ اس کے فوراً ہی بعد شاہ حسین پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور اسی پاپولر فرنٹ کی طرف سے ناصر اور شاہ حسین کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، صدر ناصر پر تو ان کا زور نہ چلا اور ویسے بھی صدر ناصر کی سوشلسٹ حکومت پر انہیں کچھ نہ کچھ اعتماد تھا کہ وہ ہمارے عزائم میں مداخلت نہیں کرے گی۔
انتہاء پسند حریت پسندوں کے عزائم:
شاہ حسین کی بدقسمتی یہ کہ جس حوصلہ اور بردباری سے اس نے حریت پسندوں کی دلجوئی کی اور فلسطین کی آزادی میں جس خلوص اور ہمدردی سے ان کی مدد کی اور اس شرط پر کہ وہ اس کی حکومت میں مداخلت نہیں کریں گے مگر اُنہوں نے وعدہ