کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 4
آزادی رائے کا نام وہاں، بے حسی اور بے غیرتی تھا بنیادی مکارمِ حیات، عقائد اور نظام خیر کے خلاف ’’یاوہ گوئی‘‘ ہو اور کوئی مسلم مسکرا کر اسے برداشت کرے؟
؎ این خیال اسست و محال است و جنوں
یہی وجہ ہے کہ ’’ارتداد‘‘ سرکاری جرم تصور کیا جاتا تھا اور عوام کو اس کے تصور سے سخت وحشت ہوتی تھی۔
ملک کے مختلف گوشوں میں، مختلف صلاحیت رکھنے والے بے شمار رہنما اور افراد موجود تھے سبھی صالح، مخلص، اہل تر اور خدا ترس تھے۔ اس لئے پوری ملت اسلامیہ ان صلحائے امت کے گرد جمع تھی اور کسی تنظیمی احساس کے بغیر منظم تھی۔ مگر آہ! اب یہ کیفیت نہیں رہی اور ایک ایک کر کے وہ تمام اقدار بدل گئی ہیں، جن کے دم قدم سے ہمارے لئے ہماری شیرازہ بندی ممکن اور قابلِ مثال تھی۔ اس لئے آخری چارۂ کار کے طور پر اب ملتِ اسلامیہ ہی غیر سرکاری اور نجی تنظیموں کی ضرورت اور اہمیت کا احساس عام ہو گیا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب جمعیت اہل حدیث کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی تو سابق امیر جمعیت اہل حدیث حضرت مولانا محمد اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لائل پور (جامع مسجد اہل حدیث امین پور بازار) میں یہی وجوہات بیان کر کے اپنی جماعت کو منظم کرنے کی کوشش کی تھی۔
ہمارے نزدیک ’’جماعتی تنظیم‘‘ سے غرض افراد جماعت کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اس ’’ذہن و فکر‘‘ کی عافیت مقصود ہے، جس پر افرادِ جماعت کی تخلیق، احیاء اور فاقت کا دار و مدار ہے۔ جماعت اہل حدیث کا اپنا ایک مزاج اور مخصوص ذہن ہے۔ اگر یہ سلامت نہ رہیں تو وہ جماعت کیا ہو گی، جماعت کا بے روح لاشہ ہو گا جن کے افراد بتدریج آس پاس کی ان تحریکوں میں تحلیل ہو جائیں گے جن میں ان کی بہ نسبت زیادہ جان ہو گی، جیسا کہ اب صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔
جماعت اہل حدیث کے نزدیک دین و ایمان کا سرچشمہ صرف قرآن و حدیث ہے اور جو چیز ان سے ماخوذ نہیں، وہ اور تو بہت کچھ ہو سکتی ہے، دن نہیں بن سکتی۔ کاش! وہ گھڑی اور وقت