کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 37
سے دونوں آدمیوں کو اتار دیا گیا۔
اپنے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے لیلیٰ خالد اور اس کے دوست نے اپنے ساتھیوں کا اس وقت تک انتظار کیا جب تک کہ جہاز نے ایمٹرڈم کی فضاؤں میں پرواز نہیں شروع کی تھی۔
اغواء کی کوششیں:
فضاء میں جہاز کے آتے ہی لیلیٰ اور اس کے ساتھی اپنی سیٹوں سے کود کر کھڑے ہو گئے اور گرنیڈ اور پستول تان لیے اور فرسٹ کلاس کیبن کی طرف دوڑنے لگے۔ ان کے پیچھے جہاز کے عملے کا ایک آدمی اور حفاظتی افسر دوڑا۔ جب پائلٹ نے یہ منظر دیکھا تو اس نے جہاز کو بریک لگا کر ایک جھٹکا دیا۔ جس سے وہ لڑکھڑا گئے اور مسافروں نے دوڑ کر لیلیٰ خالد پر قابو پا لیا۔ اسی دوران حفاظتی افسر کو لیلیٰ کے ساتھی کے ساتھ باقاعدہ جنگ لڑنی پڑی جس میں لیلیٰ کا ساتھی مر گیا۔ لیلیٰ کے ہاتھ سے جو گرنیڈ گرے وہ پھٹ نہیں سکے اس لئے جہاز، اس کا عملہ اور تمام مسافر موت کے منہ سے بچ گئے۔ جہاز کو لندن اتار لیا گیا۔
اِس حادثے کے ۴۵ منٹ بعد ایک اور جہاز ٹی ڈبلیو اے ۷۴۱ فرینکفورٹ سے اُڑ کر بحیرۂ شمالی پر پرواز کرنے لگا۔ اسی دوران جہاز کے کیپٹن سی ڈی وڈ نے وائر لیس کے ذریعے کہا کہ ہمیں اغواء کیا جا رہا ہے۔ پھر اُس نے مشرق وسطیٰ کا راستہ لیا۔
قریباً انہی لمحوں کے دوران عرب حریت پسندوں نے ایک اور جہاز ڈی سی۔ ۸ کو اغوا کر لیا۔ یہ جہاز زیورچ سے نیویارک جا رہا تھا۔ جب وہ فرانس پر سے گزر رہا تھا تو فرانس کے زمینی کنٹرول پر جہاز میں ایک عورت کے بولنے کی آواز آئی کہ ’’جہاز ہمارے مکمل کنٹرول میں ہے ہماری منزلِ مقصود حیفہ ہے ہم کسی اور بات کا جواب نہیں دیں گے۔‘‘ اسی دوران ٹی ڈبلیو اے ۷۴۱ جہاز سے ایک نئے سگنل کی آواز آئی کہ یہ غزہ ہے۔
دراصل غزوہ اور حیفہ ان کی منزل مقصود نہیں تھا بلکہ وہ جہاز اردون سے شمال مغرب کی طرف ۲۵ میل دور اتارے جانے تھے۔ اس علاقے کو برطانیہ کی جنگ عظیم دوم کے موقع پر تربیتی