کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 35
لئے جارج حبش کے سر کی قیمت لگا دی۔ ذیل میں ہم اس تنظیم کی تخریبی کارروائیوں کا مختصر سا جائزہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
گزشتہ دنوں اردن کے صحرا میں مختلف ملکوں کے تین جہازوں کے عین دوپہر کے وقت ایک زبردست دھماکا کے ساتھ پھٹتے ہی ایک گرد اٹھی جس میں بلند شعلے لپکتے ہوئے نظر آئے۔ چند ہی منٹ بعد ان جہازوں کے انجر پنجر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دور دور تک بکھر گئے۔ اس کے ساتھ ہی فتح و کامرانی کے نعرے بلند ہوئے اور کچھ لوگ ان جہازوں کے ملبے پر فاتحانہ انداز میں رقض کرنے لگے۔
یہ جہاز ان عرب حریت پسندوں کی ایک تنظیم کے چند فدائیوں نے اغوا کر کے عمان سے ۲۵ میل دور صحرا میں اتار دیئے تھے جس کے رہنما وہی بدنام اور عیسائی ڈاکٹر جارج حبش ہیں۔ انہوں نے جہازوں کے مسافروں کو یرغمال کے طور پر رکھ لیا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر قید میں پڑے ہوئے حریت پسندوں کو آزاد نہ کیا گیا تو ان مسافروں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا جائے۔
بظاہر یہ بڑا دلیرانہ اقدام تھا اور حریت پسندوں کے لئے اس سے بڑا عظیم اور کارنامہ ہو بھی کیا سکتا تھا۔ اس لئے جب اس بہادری کے کارنامے کی شہرت تمام دنیا میں معترف نگاہوں سے دیکھی جانے لگی تو ان کی تنظیموں میں بعض انتہاء پسندوں نے نتائج سے بے پروا ہو کر کچھ اس قسم کا پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ دنیا کی توجہ ان کے گھناؤنے عزائم کی طرف نہ جائے۔
دراصل انتہاء پسند تنظیموں میں ڈاکٹر جارج حبش کی تنظیم پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین مارکس کے نظریات کی حامل ہے اس کا تعلق ماؤ سے ہے۔ گزشتہ دنوں جارج حبش نارتھ کوریا کے راستے پیکنگ سے واپس آئے جہاں سے انہوں نے ہتھیاروں اور فنڈز کی امداد حاصل کی اور مرحوم صدر ناصر وار شاہ حسین کی تسلیم کردہ جنگ بندی کے معاہدہ کی زبردست مخالفت شروع کر دی۔ اس نے بیان دیا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کی گئی تو ہم مشرقِ وسطیٰ کو جہنم زار بنا دیں گے۔ اسی تنظیم نے جولائی ۱۹۶۸ء میں ایک اسرائیلی جہاز کو اغواء کر کے الجزائر میں اتار دیا تھا۔ تنظیم کے گوریلوں نے جہاز اور اس کے مسافروں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر کار انہیں ۱۲ اسرائیلی مسافروں کو چھوڑ کر باقی تمام مسافروں کو رہا کرنا پڑا۔