کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 34
ڈاکٹر جارج حبش:
ان انتہاء پسند تنظیموں میں ڈاکٹر جارج حبش کی تنظیم ایسی ہے، جو طیاروں کے اغوا اور اس قسم کی دوسری تخریبی سرگرمیاں کرا رہی ہے۔ جن سے اس کی غرض یہ ہے کہ ایک طرف تو عرب ملکوں میں پھوٹ پڑے اور وہ آپس میں لڑیں بھڑیں اور دوسری طرف غیر ملکی طاقتیں براہِ راست عرب ممالک میں جنگی فضا قائم کر کے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اس تنظیم نے مسلمانو کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ شاہ اردن کو سامراج کا پٹھو ثابت کر کے بدنام کیا جائے اور اس کے خلاف تمام تنظیموں کو بھڑکا کر اُردون پر قبضہ کیا جائے۔ اردن پر قبضہ کرنے کے بعد ہی کھیل سعودی عرب میں کھیلا جائے اور اس پر بھی قبضہ یا جائے۔ جب یہ دونوں حکومتیں، شام، عراق اور متحدہ عرب جمہوریہ کی طرح سوشلسٹ بن جائیں گی تو اس کے بعد اسرائیل پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ حالانکہ یہ سارا مشن یہودیوں کے مفاد میں جاتا ہے، اسلئے ہمارے نزدیک یہ تنظیم یہودیوں کے مقاصد کی تکمیل کے لئے مصروف ہے۔
شاہ حسنین کا اندازہ صحیح تھا:
شاہ حسین جیسا عظیم مدبر، دلیر جرٔت مند انسان اور اسرائیل جیسی خوفناک طقت سے شیروں کی طرح لڑ جانے والا مرد مجاہد ان تمام خرابیوں کو جانتا تھا جو حریت پسندوں میں پنپ رہی تھیں۔ چنانچہ موجودہ بحران کے دوران اس نے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا کہ اس خانہ جنگی کی باعث حریت پسندوں میں بض نام نہاد اور انتہاء پسند تنظیمیں ہیں، چنانچہ اس خانہ جنگی سے نپٹنے کے لئے اس نے اپنے تمام اختیارات فوجی حکومت کو سونپ کر اکٹر مجالی کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اب شاہ حسین تین اطراف سے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف تو وہ حریت پسندوں (جن کی امداد تمام سوشلسٹ عرب ممالک کر رہے تھے اور شامی فوجیں تو براہِ راست اردن میں داخل بھی ہو گئی تھیں) نے اور دوسری طرف اسرائیل جس نے اپنی تمام افواج دریائے اُردون کے پار دوسری طرف لا کھڑی کر دی تھیں وار تیسری طرف امریکہ برطانیہ جو اردن میں براہِ راست مداخلت کے لئے تیار تھے، ان حالات میں اردن کی وفادار فوجوں نے نہایت جانفشانی اور تدبر سے ان ابتر حالات پر قابو پایا۔ انہوں نے ٹھیک اندازہ لگایا کہ یہ سب شرارت انتہاء پسند تنظیموں کے سربراہوں کی ہے۔ اس