کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 29
لینا چاہئے۔ شاید ان کو اپنی کارستانیوں کا انجام سمجھ میں آجائے۔ فرعون اور اس کی پارٹی جیسی کچھ تھی، کسی سے پوشیدہ نہیں، ان کی جاہ و حشمت سے مرعوب ہو کر یا للچا کر جن لوگوں نے ان کے اقتدار کو طول دینے اور مستحکم کرنے میں حصہ لیا تھا حق تعالیٰ ان کے بد انجام کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاَۃُ قف اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعُوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابَہ وَاِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّار فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَھَلْ اَنْتُمْ مُغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ ہ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنَّا کُلٌّ فِیْھَا ط (پ ۲۴، المومن ع ۵) اور جس دن قیامت برپا ہو گی (اس دن ہم حکم دیں گے کہ) فرعونیوں کو سخت سے سخت عذا میں (لے جا کر) داخل کرو۔ اور وہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے تو کیا (اب) تم ہم پر سے تھوڑی سے آگ بھی پرے ہٹا سکتے ہو؟ بڑے لوگ بولیں گے کہ (اب تو) ہم (تم) سب اسی (آگ) میں پڑے ہیں۔ اس کے بعد قرآن حکیم نے ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ جہنم کے داروغے کی منت سماجت کریں گ کہ وہ کسی طرح اللہ میاں سے سفارش کریں کہ وہ کسی دن ہی ہم سے عذاب ہلکا کر دیا کرے۔ وہ جواب دیں گے: کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول احکامِ الٰہی لے کر نہیں پہنچے تے۔ کہیں گے ’’ہاں پہنچے تھے اس پر وہ جواب دیں گے تو پھر خود ہی خدا سے عرض معروض کرو۔ مگر ان کی یہ ساری فریادیں رائیگاں جائیں گی۔ پھر فرمایا اپنا رسولوں اور مسلمانوں کی ہم ضرور مدد کریں گے۔ دیا میں بھی اور قیامت میں بھی۔ باقی رہے وہ ظالم تو فرمایا:۔ یَوْمَ لَا یَنَفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُھُمْ وَلَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓئَ الدَّارِ (ایضا) (قیامت کا وہ) دن جس دن ظالموں کو ان کی معذرت (کچھ بھی) نفع نہ د یگی اور ان پر (خدا کی) پھٹکار ہو گی اور ان کو (بہت ہی) برا گھر (رہنے کو) ملے گا۔ جب منکرین حق ہر طرف سے مایوس ہو جائیں گے تو غصے میں جل بھن کر رب سے کہیں گے۔