کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 27
وَلَا تُعْجِبُکَ اَمْوَالُھُمْ وَاَوْلَادُھُمْ ط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّبَھُمْ بِھَا فِیْ الدَّنْیَا وَتَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ۔ (پ ۱۰۔ التوبہ ع ۱۱)
اور ان کے مال اور اولاد تمہارے لئے موجب تعجب نہ ہوں (دراصل) خدا چاہتا ہے کہ (مال و اولاد کی کثرت کی وجہ سے) ان کو دنیا میں مبتلائے عذاب رکھے اور ان کی جان نکلے (تو اس وقت بھی) یہ کافر ہی ہوں (تاکہ اخروی عذاب بھی ان کے لئے ضروری ہو)
ان بد لوگوں کے بارے میں یہ خدائے برحق کی باتیں ہیں، گو آج آپ نہ کہیں، لیکن کل آپ بھی چلا چلا کر یہی کہیں گے اور ان کے پیچھے چلنے کے جو بد نتائج نکلیں گے ان کو دکھ دیکھ کر آپ بھی پچھتائیں گے مگر اس وقت اس کا کچھ فائدہ نہ ہو گا۔
وَلَوْ تَرٰی اِذَا الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج یَرْجِعُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضِ نِ الْقَوْلَ ج یَقُوْلُوْا الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْاَ لَولَا اَنْتُمْ لٰکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۔
اور کاش تم دیکھو، جب (قیامت کے دن یہ) ظالم اپنے رب کے حضور میں (جواب دہی کے لئے) ٹھہرائے جائیں گے (اور) وہ ایک دوسرے کی بات کو رو کر رہے ہوں گے، کمزور (اور ادنی درجے کے لوگ) بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ہی ایمان کی بات مان لیتے۔
لیکن یہ شاطر اور مکار لوگ، چپ رہنے والے کہاں، سن کر بولیں گے:۔
قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا نَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْھُدٰی بَعْدَ اِذْ جَائَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُجْرِمِیْنَ۔ (پ۲۲۔ السبا ع ۴)
(یعنی اس پر) بڑے لوگ کمزوروں سے کہیں گے کہ (بتاؤ تو سہی) جب تمہارے پاس ہدایت آئی تو کیا اس کے آنے کے بعد ہم نے تم کو (زبردستی) اس (پر عمل کرنے) سے روکا تھا؟ بلکہ تم خود ہی جرائم پیشہ اور قصور وار تھے۔
ہو سکتا ہے کہ بڑے لوگوں نے زبردستی ان کی راہ نہ ماری ہو، لیکن یہ تو ایک واقعہ ہے کہ شاطرانہ چالوں اور مکرو فریب کے ذریعے تو یہ لوگ کوئی کمی نہیں کرتے اور یہ سبھی جانتے ہیں، اس لئے اس کے