کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 14
بغیر چارہ گری کے چین و سکون حاصل ہو سکتا تھا۔ خلفائے کرام کی زندگی کا ایک ایک ورق ایک ایک عنوان اتنا روشن و درخشاں ہے کہ اس میں غرباء و ضعفاء و فقراء کے ساتھ دل سوزی و دردمندی کے تمام حالات آئینہ کی طرح نظر آسکتے ہیں۔
خلفائے اسلام کی مدت سے وفاداری رعایا پروری، غرباء نوازی اور آج کے سلاطین وقت کی بے فکریوں اور عشرت پرستیوں کو آمنے سامنے رکھیے تو واضح ہو گا کہ ایک طرف صرف وفا ہی وفا ہے تو دوسری طرف عشرت گاہ، سلاطین میں صرف جفا کاریاں ہیں۔ پھر بھی یزبان قال برکات خلافت کا انکار کیا جا رہا ہے۔
جحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا۔ صدق من قال
اک جفا تیری کہ کچھ بھی نہیں پر سب کچھ ہے اک وفا میری کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں
ایک ضروری انتباہ: اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وظیفہ و عطیات کو عام فرما دیا تھا لیکن وہ اس کوشش میں بھی رہتے کہ وظیفہ پر بھروسہ کر کے لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری نہ پیدا ہونے پائے۔ اِس لئے عموماً وظائف کی تقسیم میں خدمت و کارکردگی اور اسی طرح ضعیفی و مسکینی وغیرہ امور کا لحاظ مقدم رکھتے تھے۔ وظائف ان کے مقرر تھے جن سے اسلامی مجاہدات میں کام لیا جاتا تھا، یا ان سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت ملنے کی توقع ہو سکتی تھی۔ یا جنہوں نے پہلے کوئی نمایاں خدمت کی تھی یا ان کے آباؤ اجداد نے کسی معرکہ میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ چنانچہ اس قسم کی مثالیں آپ عمال کی قدردانی کے باب میں دیکھیں گے۔ اِسی طرح ان معذوروں اور ضعفاء کے بھی وظائف مقرر تھے جو کسب معاش سے معذور تھے۔ بہرحال جنگی مہمات میں حصہ لینے والوں اور فنی ماہروں اور سابقہ استحقاق رکھنے والوں کا جس طرح وظیفہ مقرر تھا۔ اسی طرح بیماروں، ضعیفوں، مسکینوں کا بھی وظیفہ مقرر تھا تاکہ فی الجملہ وجہ معاش کا نظم قائم رہے لیکن ان تمام قسم کے لوگوں سے تاکید فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے وظائف و عطیات پر بھروسہ نہ کرو، کھیتی باڑی وغیرہ کا انتظام بھی گھر پر رکھو۔ ادب المفرد الاستیعاب۔