کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 13
بعد سلطانی و شاہی کے انجام و فنا پذیری پر ان شعروں کو پڑھا۔
این الملوک السنتی کانت لعزتھا من کل ادب الیھا وافد یفدٗ
لم نحن عن ہرمز یوما خزائنہ والخلد قد حاولت عاد فما خلدوا
ولا سلیمان اذ تجری الریاح لہ والجن والانس فیما بین ترد
حوض ھنالک مورود یلا کذب لابد من وردہ یوما کما وردوا
(استیعاب لابن عبد البر جلد ثانی ص ۴۲)
یعنی شاہان سلف و اقوام عالم عاد و ہرمز و سلیمان وغیرہ جس طرح موت کے گھاٹ اُتر گئے، اِسی طرح سب کا خاتمہ موت کے گھاٹ پر ہو گا۔ کیا سچ ہے۔
؎ گو سلیمان زماں بھی ہو گیا پھر بھی اے سلطان آخر موت ہے
مختصر یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور خلفاء کرام نے دورِ خلافت میں بیت المال کو ہمیشہ قوم کی ایک عظیم امانت تصور فرمایا اور خدا ترسی اور استحضار آخرت کے ساتھ ہمیشہ مفادِ عوام کو پیش نظر رکھا۔ یہ احساس کہ بیت المال کا خزانہ عام مسلمانوں کا ہے۔ مدت دراز تک قائم رہا۔ علامہ شاطبی لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ حکم نے رمضان میں عورت سے وطی کر لی تو علماء نے فتویٰ دیا کہ ساتھ مسکین کو کھانا کھلاویں۔ محدث اسحٰق بن ابراہیم خاموش تھے۔ خلیفہ نے پوچھا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا آپ دو ماہ کے دوزے رکھیں۔ علماء نے کہا امام مالک کا مذہب تو اولا! کھانا کھلانے ہی کا ہے۔ فرمایا ہاں یہ مسلک اس کے لئے ہے جس کے پاس مال ہو۔ امیر المؤمنین کے پاس مال کہاں؟ بیت المال میں بے شک مال موجود ہے مگر وہ عام مسلمانوں کا ہے۔ خلیفہ حکم نے محدث اسحاق بن ابراہیم کا شکریہ ادا کیا اور انہی کے قول پر عمل کیا۔ (کتاب الاعتصام جلد ثانی ص ۲۸۳)
معلوم ہوا خلفاء میں ایک مدت تک بیت المال میں عوام کے حق کا احترام موجود تھا۔
الغرض ان تمام بصیرت افروز حقائق کو پیش نظر رکھنے والے خلفائے اسلام عوام و غرباء و مساکین و ضعفا کی ضروریات و حاجت سے بھلا کیونکر صرف نظر فرما سکتے تھے بلکہ ان کو کس طرح