کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 12
کرنا مسلمانوں ہی کا فرض ہے۔
اغنیاء پر فرض ہے: ۶۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ ان اللّٰہ فرض علی الاغنیاء فی اموالھم ما یکفی الفقراء فان جاعوا ادعروا اوجھدوا فبمنع الاغنیاء حق علی اللّٰہ تبارک و تعالٰی ان یحاسبھم ویعذبھم (کتاب الاموال ص ۵۹۶)
یعنی اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مال میں اس قدر ڈیوٹیاں اور ٹیکس زکوٰۃ و صدقات کی شکل میں غرباء کے لئے مقرر فرمایا ہے جو فقراء کی ضروریات کے لئے کافی ہو سکتی ہیں۔ پس اگر غریب مسلمان بھوکے یا ننگے رہ گئے اور کسی طرح کے تعب و مشقت میں پڑے مثلاً مکان سے محروم ہو گئے صحت و تندرستی کے اخراجات اور اولاد کو تعلیم دلانے کے مصارف سے مجبور ہو گئے تو چونکہ یہ دولت مندوں کی کوتاہی اور عشر و زکوٰۃ و انفاق و سخاوت نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے امراء پر اللہ کی طرف سے سخت محاسبہ اور ابدی لعنت و سخت عذاب لازم ہو گا۔
اغنیاء کے لئے مقامِ غور: ۷۔ حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، من کثرت نعم اللّٰہ علیہ کثرت حوائج الناس الیہ فان قام بما یحب للّٰہ فیھا عرضھا للدوام والبقاء وان لم یقم فیھا بما یحب للّٰہ عرضھا للزوال ومستطرف جلد اول صفحہ ۱۱۴)
یعنی جس پر اللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرف لوگوں کی ضروریات زیادہ ہوتی ہیں پس اگر واجبات الہیہ ادا کرتا ہے تو ان نعمتوں کو قرار و دوام نصیب ہوتا ہے ورنہ نعمتیں دیر سویر ضرور زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
ارباب اقتدار کے لئے درسِ عبرت: خلفائے اسلام بلا شبہ عہدۂ خلافت کو خدا کی جانب سے ایک عظیم عطیہ و عظیم اعانت سمجھتے تھے وہ ہر وقت خدا کی اعلیٰ ترین حکومت کے سامنے جواب دہی کو پیش نظر رکھتے تھے۔ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سفر حج سے واپسی میں فرمایا کہ آج میرا وہ مقام ہے کہ خدا کے سوا اور کسی اقتدار اعلیٰ کا مجھ پر خوف و ہراس نہیں ہے۔ اس کے