کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 11
بال بچوں کے استعمال سے جو مقدار زائد ہو فلیوجّھم الی من ھو احوج الیہ منہ (مسند احمد جلد ۵ صفحہ ۶۵) یعنی اسے اپنے سے زیادہ محتاج کے حوالے کر دے۔
حافظ ابن کثیر کا ارشاد: ۳۔ حافظ الحدیث علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ سورہ نساء کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ کان المومنون فی ابتداء الاسلام وھم بمکۃ مامورین بالصلوٰۃ والزکوٰۃ وان لم یکونوا ذات نصاب کانوا مامودین بمواساۃ الفقرا (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص ۵۲۵)
یعنی اہل ایمان نماز و زکوۃ کے پابند تھے اور اگر صاحب نصاب نہ ہوتے تو بھی فقراء وغرباء کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے ۔نفلی صدقات کے ذریعہ امداد کرنے کا ان کو حکم دیا گیا ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ادراے : ۴۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا ہے ۔ لو استقبلت من امري ما استدبرت لاخذت فضول اموال الاغنياء وقسمتها علي فقراء المهاجرين ( محلي ابن حزم جلد سادس ص 158)
یعنی اگر مجھے پہلے سے اندازہ ہو جاتا تو امراء کی فاضل دولت لے کر فقراء میں تقسیم کر دیتا۔
۵۔ ایک اور موقع پر فاروق اعظم نے فرمایا ہے۔ ما ترکت باھل بیت من المسلمین لھم سعۃ الا ادخلت معھم اعدادھم من الفقراء (تقدمۃ الجرح والتعدیل ص ۱۹۲ والادب المفردد ص ۸۳) ۔
یعنی وسعت والے امیروں کا کوئی گھر نہ چھوڑوں گا اور غرباء اور فقراء کا کھانا ان پر لازم کر دوں گا اور اس کی صورت یہ ہو گی کہ ایک امیر خاندان میں جتنے نفر ہوں گے اتنے ہی فقراء کا کھانا ان پر لازم ہو گا کیونکہ ایک آدمی کا پورا کھانا بوقت ضرورت دو آدمیوں کو کفایت کر سکتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر قومی بیت المال کافی نہ ہو اور قلمرو میں محروم المعیشت انسان موجود ہوں تو اس صورت میں اہل دولت کے سرمایہ سے حسب ضرورت ان کے معاش کا انتظام کیا جائے گا۔ خلیفۂ وقت ہنگامی ضروریات کے سبب اغنیاء کے اموال سے مال حاصل کر کے فقراء کی ضرورت اور کمی کو پورا کرے گا۔ معلوم ہوا کہ ادائیگی زکوٰۃ پر معاملہ ختم نہیں ہو گا بلکہ قوم و ملت کی ضرورت ہی اصل معیار ہے جب حکومت ان کی کفیل نہ بن سکے تو غرباء کی ضروریات کو پورا